عالمِ اسلام

Alam-e-Islam

Paigham-e-Sulh (Pakistan), 15th March 1931 Issue (Vol. 19, No. 16, p. 4)

کابل کی ایک اطلاع مظہر ہے کہ حکومت اور تجار کے مشترکہ سرمایہ سے ایک بنک قائم کیا گیا ہے تاکہ افغانی روپیہ کی قیمت کے استحکام اور تجارت کی توسیع میں اِس سے امداد لی جائے۔ بنک کے مراکز قندھار، مزار شریف ، پشاور اور کوئٹہ ہوں گے۔


ایران کے سرکاری اخبار کو انگورہ سے اطلاع ملی ہے کہ غازی مصطفٰے کمال پاشا ترکی کی اقتصادی تباہی سے کافی طور پر متاثر ہیں۔ آپ نے مراجعتِ سفر کے بعد یہ طے کیا ہے کہ جمہوریت کے صدارتی امور کے علاوہ تمام امورِ مملکت کی ازسرِ نو تشکیل کی جائے۔ لیکن عام طور پر یہ خیال موجود ہے کہ موجودہ حالت میں یہ اقدام بھی کچھ زیادہ مفید ثابت نہ ہوگا۔


دولت ترکیہ کی شہری پارٹی کے لیڈر عبدالقادر کمال بے نے ترکیہ کی موجودہ سیاسی صورتِ حالات کی موجودگی میں جلا وطنی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ جلا وطنی خود اختیاری ہے۔ کمال بے ترکی سے سوریہ پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے احباب نے اِس سفر کو بہت مخفی رکھا اور کسی کو خبر نہ ہونے دی ۔ کمال بے نے ترکی سے روانہ ہونے سے پیشتر اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے پُرزور الفاظ میں کہا کہ اب میں کچھ عرصہ کے لئے وطن کو چھوڑ رہا ہوں ۔ فی الحال سوریہ جاؤں گا، وہاں سے ایران۔ ترکیہ کا آفتا ب روزانہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور اِس کے بعد میں بھی مشرق ہی کی جانب سے اپنے وطن میں داخل ہوں گا۔


کردی شورش کے سلسہ میں حکومت ترکیہ نے دولت ایران سے شکایت کی تھی کہ وہ کردی شورش کی بالواسطہ پشت پناہی کررہی ہے۔ دولت عظمٰی ایران نے اِس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حکومتِ ایران نے اِس سلسلہ میں باغیوں کی کوئی مدد نہیں کی۔ حکومت نے سرحدات کے لئے مزید احکام جاری کئے ہیں تاکہ خاطر خواہ اطمینان کرلیا جائے۔


ترکیہ اور بلغاریہ میں تجارتی معاہدہ کے لئے جو گفت و شنید ہورہی تھی وہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ اور معاہدہ مرتب ہوگیا ہے۔


بحرین کے عربوں کو شیخ کے اِس حکم نے سخت متعجب کردیا ہے کہ اُن کی خواہش کے مطابق کوئی عرب آئندہ عبا استعمال نہ کرے ۔ بحرین کے عرب اپنے لباس میں سخت قدامت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اپنے قدیمی لباس کو ترک کر کے کسی اور لباس کو اختیار کریں۔ اُن کا مخصوص لباس معاشرتی زندگی میں ایک ضروری چیز سمجھا جاتا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر بحرین کے شیخ کے حکم کی تعمیل کی گئی تو اُن کی قومی روایات کی سخت توہین ہوگی۔ بحرین کے ایرانی نیم یورپین لباس پہنتے ہیں اور بہت کم عرب ایسے ہوں گے جو قومی لباس پر یورپین لباس کو ترجیح دیتے ہوں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یورپین لباس جلد یا تاخیر سے بحرین میں عام مقبولیت حاصل کرے گا۔ کیوں کہ ایران اور عراق کے اعلیٰ طبقہ کے لوگ بکثرت مغربی لباس پہنتے ہیں۔


دوسرے ممالک کی طرح بحرین میں بھی تجارت زوال پذیر ہے۔ بمبئی اور پیرس کے موتیوں کی مارکیٹ کی خبروں سے بحرین میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی ہے، کیوں کہ وہاں کا تمام کاروبار موتیوں کی تجارت پر موقوف ہے۔ سوائے معمولی کاروبار کے بڑے بڑے کاروبار بند ہیں۔


معلوم ہوا کہ حکومت ِنجد نے ڈالر کی درآمد پر بیس فیصدی ٹیکس لگا دیا ہے تاکہ مقامی سکہ کی ترویج ہو اور غیر ملکی سکوں کے باعث اپنے سکوں پر کوئی اثر نہ پڑے۔


سلطان ابن سعود نے ریاض (پایہ تخت نجد) جانے سے قبل جدہ میں جو تقریر کی تھی وہ اب عربی اخبارات میں شائع ہوگئی ہے۔ یہ تقریر بھی سلطان موصوف کی دیگر تقریروں کی طرح نصیحت و موعظتہ سے بھری ہوئی تھی۔ اس میں آپ نے مغربی تہذیب اور عورتوں کی بے جا آزادی کی پُر زور اور مدلل الفاظ میں مخالفت کی۔


اخبار لبرٹی کلکتہ کا خاص نامہ نگار متعینہ ایران  رقمطراز ہے کہ ایران میں شادی کا جدید قانون مرتب ہوا ہے جس کی رو سے ۲۵ سالہ ایرانی کے لئے شادی کرنی لازم ہوگی۔ جو نہیں کرے گا اُسے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ یہ قانون اِس لئے بنایا گیا ہے کہ ایران کی آبادی کم ہو گئی ہے۔


معلوم ہوا ہے کہ غازی محمد نادر شاہ نے آفریدی ملکوں کو آئندہ موسمِ بہار میں کابل آنے کی دعوت دی ہے۔ غازی امان اللہ خاں کے وقت اُنہیں وظائف ملا کرتے تھے جو شورشِ افغانستان کے زمانہ میں بند ہوگئے۔ موجودہ بادشاہِ افغانستان کا خیال ہے کہ اُن کے وظائف کو حتی الامکان جلدی جاری کردیا جائے۔

Top