مراسلات

ایک ضروری گزارش

از
حاجی عبداللہ ہارون

Majlis-e-Mushawarat

Ek Zaruri Ilan

by the Secretary of Ahmadiyya Anjuman Ishaat-e-Islam Lahore

Paigham-e-Sulh (Pakistan), 15th March 1931 Issue (Vol. 19, No. 16, p. 1)

نوٹ۔ یہ مضمون حاجی صاحب موصوف کی طرف سے عید کے بعد موصول ہوا تھا۔ اِس کا درج کردینا اب بھی فائدہ سے خالی نہیں اس لئے اس کو مسلمانوں کے لئے مفید سمجھ کر درج کردیا جاتا ہے۔ (ایڈیٹر، عبدالحق ودّیارتھی)

عید کی خوشیاں مناتے وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنی پست و پاافتادہ قوم کو یاد رکھے جو روز بروز مذہبی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت سے تنزل کی طرف تیزی سے جا رہی ہے۔ جس کی وجہ میرے نزدیک سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ قوم کے کسی طبقہ سے خواہ وہ علماء و صوفیا کرام کا ہو، خواہ دولتمندوں کا اور خواہ متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کا، زمانہ کے انقلاب کو ابھی تک نہیں سمجھا ہے۔ سب نے قومی خدمت میں بے توجھی اور بے پرواہی سے کام لیا اور برابر لے رہے ہیں۔

اگر اب بھی قوم کے ہر فرد اور ہر طبقہ نے توجہ نہ کی (خدا نہ کرے لیکن جیسا کہ علامات بتلا رہی ہیں) ہمارے لئے ایک باعزت قوم کی حیثیت سے ہندوستان میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم انفرادی حیثیت سے بھی باعزت زندگی سے محروم ہو جائیں گے۔

قوم کی بہتری اور ترقی کے لئے میں حسبِ ذیل تجاویز پیش کرتا ہوں جن پر ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے۔ اور اگر اتفاق ہو تو اُن پر یا اُن میں سے کسی ایک پر حسبِ استطاعت عمل کرنا چاہئیے:

۱۔سب سے اول محلہ یا گاؤں وار پنچایتیں (کمیٹیاں) قائم کی جاویں جس کے ممبر قومی خدمت کا شوق رکھنے والے بے غرض اور ایماندار ہوں اور مندرجہ ذیل طور پر کام کریں:

ا۔ خیرات و صدقات پیشہ ور فقیروں پر جو تندرست ہیں اور قوم پر بار بنے ہوئے ہیں خرچ نہ ہونے دیں۔

ب۔ تمام خیراتیں اور صدقات جو جمع ہوں پنچایت کے زیرِ انتظام حسبِ ذیل طور پر خرچ کی جاویں:

۱۔ محلہ کے یتیم و بیواؤں کی خبر گیری پر۔

۲۔ محلہ کے کثیر الاولاد اور قلیل الآمدنی لوگوں کے بچوں کی تعلیم پر ۔

۳۔ مساجد کو آباد کرنے اور اُن میں لایق امام رکھنے پر ۔

ج۔ سودی قرضوں سے مسلمانوں کو بچایا جاوے جس کی وجہ مسلمانوں کی جائدادیں اور ملکیتیں ساہو کاروں کے ہاتھوں میں جارہی ہیں نیز جو لوگ اِس جال میں پھنس گئے ہیں، سمجھدار لوگ اُن کی رہنمائی کریں اور قانونی چارہ جوئی کرکے جہاں تک ممکن ہو ساہو کاروں کی زیادتیوں سے اپنے بھائیوں کو بچائیں۔

د۔ محلہ اور گاؤں میں پرچونی اور دیگر ضرویات کی دوکانیں کھلوائی جائیں۔ مسلمان دکانداروں کا فرض ہے کہ دوسرے بیوپاریوں سے اچھا اور سستا مال دیں۔

ر۔ شادی اور غمی کی غیر اسلامی رسموں سے مسلمانوں کو بچایا جاوے کہ اِن رسومات نے مسلمانوں کو دیوالیہ کردیا ہے۔

س۔ آپس کے جھگڑے آپس میں طے کرانے کی کوشش کی جاوے اور عدالتوں میں جاکر روپیہ خرچ نہ کیا جاوے۔

ص۔ کواپریٹو سوسائیٹیز قائم کی جاویں۔

ط۔ مسلمانوں کو سمجھایا جاوے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری یا غیر سرکاری، میونسپل یا مُلا اسکولوں میں سے کسی ایک میں ضرور داخل کرائیں اور جاہل نہ رہنے دیں۔

ع۔ محلہ کی مسجد میں نائٹ اسکول کھولیں اور بچوں و بڑوں کی پڑھائی کا انتظام کریں۔ اِس کے لئے محلہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو خواہ وہ کلرک ہوں یا بڑی جماعتوں کے طالبِ علم اپنی خدمات مفت پیش کرنی چاہیے۔

اس کے علاوہ:

۲۔ محلہ اور گاؤں کے سربرآوردہ لوگوں کا فرض ہے کہ حسد، بغض اور کینہ ایک دوسرے سے نہ رکھیں۔ نہ آپس میں اختلافِ رائے کے باعث ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور نہ حکام سے ملتے وقت ایک دوسرے کی چغلی اور غیبت کریں۔ اور نہ کمزوروں اور زیردستوں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ جمانے کی کوشش کریں۔ بلکہ دوسروں کے لئے نمونہ بنیں، قومی خدمت اپنا شعار بنائیں۔ اور کسی یتیم و بیوہ یا غریب کے حقوق تلف نہ ہونے دیں۔

۳۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنی آمدنی کو بڑھائے اور خرچ کم کرنے کی کوشش کرے۔ آمدنی میں سے کچھ نہ کچھ ماہوار پس انداز کرے تاکہ مصیبت کے وقت اپنا جمع کیا ہوا روپیہ کام آوے اور قرضہ لینا نہ پڑے۔

۴۔ محلہ کے سمجھ دار اور تعلیم یافتہ لوگ روزانہ شام کو کسی مسجد یا کسی جگہ میں مل کر بیٹھنے کا انتظام کریں اور اپنے اَن پڑھ بھائیوں کو بھی جمع کریں اور اُن کو اخبارات کی خبریں نیز دوسری دینی و دنیوی باتیں سنائیں اور بتائیں اور قوم کی حالت کو سدھارنے کی تجویزوں پر غور و فکر کریں۔

اگر مندرجہ بالا باتوں پر مسلمانوں نے عمل کیا تو ان شآءاللہ تعالیٰ آئندہ عید واقعی عید ہوگی اور ہماری قوم تعلیم، تنظیم، مال و دولت میں کسی سے پیچھے نہ رہے گی۔

Top