زمانہ کی آخری مہلت
فرزندانِ توحید کے اتحاد وتنظیم کی ضرورت
از
محمد انعام الحق ہوشیارپوری
Zamanah ki Aakhiri Mohlat
Farzandan-e-Tauhid ke Ittihad-o-Tanzim ki Zarurat
by Sheikh Muhammad Inam-ul-Haq Hoshiarpuri
Paigham-e-Sulh (Pakistan), 15th March 1931 Issue (Vol. 19, No. 16, p. 3)
ملک میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اور حالات نے غیر متوقع طور پر جو پلٹا کھایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت اور برادرانِ وطن کے عزائم و روش ایک کھلی حقیقت کی طرح صاف دکھائی دے رہے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی آنکھیں جان بوجھ کر بند نہ کر لیں۔ بتکدۂ بنارس کے بازاروں کے خونین ہنگامے اور ویسرائیکل لاج دہلی میں دو عظیم الشان اور ذمہ دار ہستیوں کی گفتگو یکساں طور پرا ُس وقت کے آنے کا پتہ دے رہی ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی و موت کے فیصلے اور اُن کی غیرت و حمیت کے امتحان کا آخری وقت ہو گا۔ موجودہ حالات و واقعات کی تشریح وتنقید بلا ضروت ہوگی۔ غیروں سے انصاف۔ شرافت اور رواداری کی امیدیں بھی اِس زمانہ میں بے حقیقت چیزیں ہیں کیونکہ آج کل ہم جن لوگوں سے اُن چیزوں کی توقع کر رہے ہیں گر اُن میں یہ اوصاف موجود ہوتے تو دنیا شر و فساد اور بے چینی کی جہنم کی بجائے اطمینان و مسرت اور اتحاد کی جنت نظر آتی ۔ اِس لئے ضرورت ہے کہ ہم بے فائدہ گلے شکوے کرنے اور دوسروں کو بُرا بھلا کہنے کی بجائے اپنی حالت پر غور کر کے کمزوریوں کی اصلاح کی فکر کریں کیونکہ اِس کے بغیر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے عزت کی زندگی ناممکن ہے۔
آج کل مسلمانوں میں سب سے زیادہ اتحاد وتنظیم کی کمی ہے اور اتحاد وتنظیم ہی ہمارے تمام قومی عوارض کا حکمی علاج ہے۔ اِس کے لئے آج تک بے شمار آوازیں بلند ہو چکی ہیں اور بیسوں مرتبہ کوششیں کی گئی ہیں جو قریباً سب بے نتیجہ رہیں۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اِس کے بغیر ہمارا زندہ رہنا بھی محال ہے۔ اگر فرزندان ِ توحید کا اتحاد وتنظیم مشکل ہے تو پھر اِس کے بغیر اُن کی زندگی اِس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ انتشار و نااتفاقی ایک ایسا زہر ہلا ہل ہے جس کی موجودگی میں ہماری قومی موت یقینی ہے۔ اِس لئے ہمارا فرض ہے کہ اِس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ اور اپنی گذشتہ کوششوں کی ناکامی پر پریشان ہونے اور اپنی عظمت رفیق اور وجود، بدنصیبی پر ماتم کرنے کے بجائے ایک عزمِ راسخ اور ہمتِ مردانہ کے ساتھ اُٹھیں۔ کیونکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کامران و فتح مند انسانوں کی زبانوں پر ناموافق سے ناموافق حالات اور انتہائی مشکلات کے وقت بھی پست ہمتی اور عجز کے اظہار کی بجائے فتحیابی و الوالعزمی کے اعلان جاری رہے ہیں کیونکہ اِسی کا نام زندگی ہے اور ہر ایک زندہ قوم کے لئے اِس قسم کے حالات میں زندگی کا ثبوت دینا لازمی ہے۔
اِس کے بعد میں اپنے بزرگوں سے یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ اِس وقت اتحاد وتنظیم کے لئے عملی طور پر کوئی گروہ کام کر سکتا ہے تو وہ نوجوانوں کا گروہ ہے۔ نوجوانانِ اسلام کی حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو لیکن اُن کے بغیر آپ یہ مقصد حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی جدید و قدیم تحریکات کا گہری نظر سے مطالعہ کریں، کسی تحریک کو اُس وقت تک پوری قوت حاصل نہیں ہوئی جب تک نوجوانوں نے اُس میں حصہ نہیں لیا۔ آج اگر مسلمانوں کا یہ خوابیدہ گروہ بیدار ہوجائے اور آپ اس کی رہنمائی صحیح طریق پر کریں تو بہت تھوڑے عرصہ میں حالات بدل سکتے ہیں۔
میں نے جو کچھ اوپر عرض کیا، دراصل یہ ایک تمہید کا درجہ رکھتا ہے۔ میرا اصل مقصد تو احمدی نوجوانوں کو متوجہ کرنا ہے۔ میں اُن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قومی مصائب اور آنے والے خوفناک وقت کی طرف سے اُن کی آنکھیں کب تک بند رہیں گی؟ آریہ سماج طول و عرضِ ہند میں ترقی کر رہا ہے ۔ ہندو سبھا اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اکالی تحریک زندہ ہے؟ کانگرس کا اثر بڑھ رہا ہے۔ مہابیر دلوں کا ملک بھر میں جال پھیل رہا ہے۔ یہ سب ہندو اور سکھ نوجوانوں کے کارنامے ہیں، تو پھر کیا وہ قوم جس نے کبھی خالد بن ولیدؓ، طارق، محمد بن قاسم جیسے الوالعزم نوجوان پیدا کئے تھے آج بالکل ناکارہ ہوچکی ہے۔ کیا محمد رسول اللہ صلعم کی نام لیوا، مجدّدِ وقت کے ہاتھ پر بیعت کرنے والی جماعتِ احمدیہ کے نوجوان مسلمان قوم کو اپنی آنکھوں کے سامنے تباہ ہوتا دیکھیں گے اور حرکت نہ کریں گے؟ الفاظ بہت سخت ہیں۔ لیکن مجھے کہنے کی اجازت دی جائے کہ اگر ہم احمدی نوجوانوں نے یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کر لیا تو تاریخ ہمیں ذلیل ترین قومی غداروں کی صف کے علاوہ اور کہیں جگہ نہ دے گی۔ اُٹھو، دیکھو تمہاری قومی کشتی گردابِ مصائب میں پھنسی ہوئی ہے۔ تمارےدین کا وقار و رعب تباہ ہو رہا ہے، غیروں کے کیمپ میں تمہاری تباہی و ذلت کے منصوبے ہو رہے ہیں۔ میں تم کو کسی قوم یا جماعت کے خلاف بھڑکانا یا صف آراء نہیں کرنا چاہتا لیکن تمہارے بدستور خاموش و خوابیدہ رہنے کی صورت میں عنقریب جو کچھ ہونے والا ہے وہ ضرور بتا دینا چاہتا ہوں۔ اگر تم نے فوراً اپنی قوم کو نااتفاقی و انتشار سے بچانے کی کوشش نہ کی تو تماری قوم کے ساتھ وہ سب کچھ ہوگا جو آریوں نے گونڈوں اور بھیلوں کے ساتھ کیا، جو یونانیوں نے ایرانیوں کے ساتھ کیا، جو گوری قوموں نے حبشیوں کے ساتھ کیا۔ جو بہت سے ممالک میں عیسائی و تاتاری خود تمہارے ساتھ کر چکے ہیں۔ میں کسی پر حملہ نہیں کر رہا بلکہ تاریخ کا بار بار کا دہرایا ہوا سبق تمہیں سنا رہا ہوں، اگر تم اب بھی بیدار نہ ہوئے تو زمین کفر زار ِہند میں تمہارے لئے عزت کی زندگی بالکل ناممکن ہو جائیگی۔ تمہارا مذہب، تمہارا وقار، تمہاری عزت و ناموس، تمہاری جان، تمہارا مال و زر سب کچھ غیر محفوظ ہو گا۔ کیوں کہ کم ہمت، مفلس، مقروض، کمزور، غیرمنظم اور غیر متحد قوموں کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے اور ہمیشہ یہی ہوگا۔
احمدی نوجوانو! اٹھو، قوم کے بکھرے ہوئے دانوں کے لئے ایک تار بن جاؤ۔ نا اتفاقی و انتشار کا قلع قمع کر دو۔ دشمن کے تیروں کے سامنے اپنے سینے تان دو! قوم کے زوال کو اپنی اولوالعزمیوں سے عروج میں بدل دو، اپنی بیداری و عمل سے مخالفوں کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دو اور اپنی اَن تھک جدوجہد کو قوم کی باعزت زندگی کا ضامن بنا دو۔ زمانہ ہمیں یقیناً یہ آخری مہلت دے رہا ہے۔ اِس کو صحیح طور پر استعمال کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ و شاندار بنا لو یا اپنی قوم کو ہمیشہ کے لئے تباہی و غلامی میں پھینک دو۔ اِس وقت تمہارے ذمہ کیا فرائض ہیں؟ اِس کے لئے موجودہ واقعات کا گہری نظر سے مطالعہ کرو۔ تم اِن فرائض کو کس طرح ادا کر سکتے ہو۔ اِس لئے قرآن و حدیث، اسلامی تاریخ، مجدّدِ وقت اور حضرت امیر (محمد علی) کی کتابوں اور خطبات کو پڑھو۔