جس راہ چلے تیرے دروبام ہی آئے

از
رضیہ فاروقی

Jis Rah Chale Tere Dar-o-Bam hi Aaye

by Razia Faruqui

Paigham-e-Sulh (Pakistan), 20th February 1980 Issue (Vol. 67, No. 8, p. 3)

یہ ہماری ایک معزّز بہن کے سفرِ حج کے تاثرات ہیں جو اُنہوں نے پیغامِ صلح کے لئے قلمبند فرمائے ہیں۔ آپ ایک صاحبِ علم و عمل احمدی خاندان کی بزرگ خاتون ہیں۔ اِن کی تحریر میں کتنا خلوص اور والہانہ پن ہے۔ طرزِ بیان میں کتنی سادگی اور بے ساختگی ہے۔ سرورِ کائناتؐ سے کتنا عشق اور پیار ہے۔ مذہبِ اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی کتنی تڑپ ہے۔ قارئینِ کرام اِس کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں (ادارہ)۔

تاریخ ۲۶ اپریل ۱۹۷۹ء تھی۔ یہ ایک مکہ معظّمہ کی ایک نورانی صبح تھی۔ چڑھتے سورج کی سنہری کرنیں غلافِ کعبہ کے سیاہ رنگ اور سنہری کام کو چمکا رہی تھیں۔ نمازِ صبح اور اُس کے بعد طواف کرنے والوں کی جو بھیڑ ہوتی ہے، وہ چھٹ چکی تھی۔ لوگ دنیا کے کاروبار اور غمِ  روزگار میں الجھنے جا رہے تھے۔

قسمت کی یاوری دیکھئے کہ میں ملتزم (درِ کعبہ کی دہلیز) سے چمٹی کھڑی تھی۔ اپنا یہ گنہگار وجود، صبح و شام، وقت اور مقام سب فراموش ہو گئے تھے۔ دل و دماغ کا کیا ذکر، روح تک پگھل کے رہ گئی تھی۔ اور اِس عالمِ خود فراموشی میں میری زبان سے بار بار یہی نکل رہا تھا کہ ”اے میرے رب! اب مغرب سے طلوعِ اسلام فرما۔ یا اللہ جو روشنی یہاں سے چمکی اور پھیلتے پھیلتے سارے مشرق کو پُر نور کر گئی، اب اِس کو مغرب میں چمکا۔ اے میرے رب، ہماری جماعت بہت کم ہے، کمزور ہے، مگر تیرا حُکم ہو تو چھوٹے بھی بڑے بڑے کام کر گزرتے ہیں۔ ہم سے یہ کام لے“۔ ذرا ہوش آئی تو اپنی اِس مانگ پر حیران ہوئی، تعجب ہوا کہ چھوٹا منہ، بڑی بات۔ یہ مقام، یہ دربار۔ اللہ، اللہ، اپنا یہ بے مایہ حقیر وجود اور اتنی عظیم الشان تمنّا۔ اپنی بساط سے بڑھ کر مانگا اور وہ بھی اصرار سے۔ شرم تو آئی مگر پھر اِس خیال سے دل کو ڈھارس ہوئی کہ جس گھرانے میں، جس ماحول، جس گروہ میں پیدا ہوئی، ہوش سنبھالی، جو ماں باپ سے تعلیم و تربیّت ملی، جو نمونے اپنے بزرگوں کے دیکھے، جو نصب العین اور جو مقصودِ زندگی اُن کا تھا اور اُنہوں نے ہمیں بتایا دراصل یہ اُس کا اثر تھا۔ وہ تمنا جو ابتدا سے دل و دماغ میں بس رہی تھی، وہی دعا بن کر ہونٹوں سے نکلی، تو یہ دعا صرف مجھ عاجز کمزور کی نہ تھی۔ دراصل یہ دعا ہماری ساری جماعت کی تھی۔ بچپن میں پہلے ماں باپ سے سنا، پھر خود پڑھا، بزرگوں کی تقریروں اور خطوں میں آیا، اِس صدی کے مجدّدِ اعظم کا یہ فرمان کہ وقت آ گیا ہے کہ سورج  (اسلام) مغرب سے طلوع ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی مصلحت اور قدرت کے کام، تقریباً بارہ برس ہوئے، مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ انگلینڈ میں آنا پڑا اور پھر یہیں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ شروع شروع میں تو وطن اور عزیزوں سے دوری، پردیس کی مشکلات اور اجنبیّت کی پریشانی نے گھیرے رکھا۔ جب حالات بفضلِ خدا استوار ہوئے اور رہنے کا ٹھکانا، سر و  سامان درست ہوئے تو پھر اِس نئے ملک اور اِس میں بسنے والوں کو دیکھنے،  اُن کے طور طریقہ جاننے اور حالات کو سمجھنے کا موقع مِلا۔ تو اب آکر اِس پیشگوئی کی اہمیت اور صداقت مجھ پر کُھلی، جس طرح سحر نمودار ہونے سے پہلے رات کی سیاہی زیادہ گہری ہو جاتی ہے، اِسی طرح یہ مغربی اقوام روحانی اور مذہبی جہالت اور خدا سے دوری کے گہرے اندھیروں میں ڈوب گئی ہیں۔ گو انسان کے دماغ کی معجز نما سوچوں نے سائنس کو جادو کے درجے پر پہنچا دیا ہے کہ ایک بٹن دبا کر آپ دنیا کے کٹھن سے کٹھن کام کر سکتے ہیں۔ زمین، پانی، ہوا، بجلی اور روشنی کے علاوہ اب تو خلاء اور چاند تاروں تک پہنچ ہے ، لیکن اِس سب کے باوجود صرف خدا کو بھول جانے کی وجہ سے ہی روحانی طور پر بھٹک رہے ہیں۔ روح کا سکون، دل کا اطمینان تو بے شک مفقود ہے لیکن بحیثیت انسان اور قوم کے آپ دیکھیں تو اِن میں بہت خوبیاں نظر آتی ہیں۔

ہم مشرقی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ سیدھے منہ بات نہیں کرتے، بہت مغرور ہیں، وغیرہ، وغیرہ۔ مگر قریب سے دیکھنے اور رہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فطرتاً ہی زیادہ بے تکلّف اور باتونی نہیں ہیں ورنہ اگر کسی پر بُرا وقت پڑے، بیماری یا تکلیف آجائے، کوئی پریشانی یا مصیبت ہو تو یہ لوگ دل و جان سے ساتھ دیتے ہیں۔ ایک آدمی کو خطرے سے نکالنے یا اُس کی جان بچانے کو درجنوں موت کا سامنا کرنے کو نکل پڑتے ہیں۔ اگر خودسر اور لاپرواہ اولاد، بوڑھوں اور بچوں کی نگہداشت میں کوتاہی کرتی ہے تو اُس کی کَسر گورنمنٹ اور سوشل سروس پوری کرتے ہیں۔ بوڑھوں اور بچوں کو وظیفے ملتے ہیں۔ بچوں کے لئے دودھ اور بوڑھوں کے لئے تیار خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ ڈاکٹری علاج امداد سب مفت مہیّا کی جاتی ہے۔ بے روزگاروں کو مدد ملتی ہے۔ تعلیم مفت، غرض جس اسلامی طرزِ تمدن اور طریق کو ہم زبانی سناتے ہیں، وہ یہاں کم و بیش عملی طور پر اُنہوں نے اپنایا ہوا ہے۔ اِن حقائق پر نظر کر کے بے اختیار یہ تمنا ہوتی ہے کہ کاش اگر اِس قوم کو اسلام سے روشناسی ہو اور یہ خدا کو پانے کا راستہ پا لیں تو پھر نہ صرف یہ اپنا کھویا ہوا مقصودِ زندگی اور سکونِ قلب حاصل کر لیں، بلکہ اسلام کو بھی مل  جائیں نگہبان بت خانے سے۔ یہی وجہ تھی جب اتنی عمر کی تمنا کے بعد خانہِ خدا میں حاضری نصیب ہوئی تو جہاں تک زبان نے یاوری کی سب کچھ ہی مانگا مگر یہ مغرب سے طلوعِ اسلام کی دعا سب پر مقدّم تھی۔

ویسے مکہ معظّمہ کی جو خیالی تصویر میرے دل و دماغ میں تھی کہ زرد زرد ریت کا بے آب و گیا ہ صحرا، چٹیل میدان، صرف دو پہاڑیاں صفا اور مروہ وہ بھی ریت کی نہیں۔ حضرت ہاجرہؑ کے ایمان اور صبر کی نشانیاں۔ یا دور پرے غارِ حِرا اور کوہِ فاران کی چوٹیاں۔ یہ سب بالکل محتلف نکلیں۔ مکہ معظّمہ ایک پیالے کی طرح چاروں طرف اونچے اونچے پتھریلے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ بس پیالے کے پیندے میں خانہ کعبہ واقعہ ہے۔ یہاں کے راستے اور مکانات بھی نشیب و فراز پر بنے ہیں۔ یہاں تک کہ منا اور مزدلفہ کی طرف گئے تو وہ بھی راستہ اور مکانات سب پہاڑی اور تنگ۔ سمجھ نہ آئے کہ حج کے موقعہ پر کیسے لاکھوں بندگانِ خدا یہاں سے گزر سکتے یا رہ سکتے ہیں۔ ہاں عرفات پر جا کر وادی کُھل گئی ہے اور بہت عظیم الشان میدان ہے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا آخری خطبہ الوداع ارشاد فرمایا تھا۔ وہ  چبوترا جبلِ رحمت کے نکلے ہوئے بازو پر ذرا اونچا ہے، پیچھے سارا پہاڑ ہے۔ تصوّر میں تاریخِ سلام کے پڑھے ہوئے حالات اور واقعات گھوم رہے تھے  کہ اللہ اُنہیں دشوار گزار پہاڑیوں اور سنگلاخ چٹانون اور بے آب و گیاہ وادیوں میں دنیا کے کامل ترین انسان پیغمبر آخرالزماںؐ کا ظہور ہوا اور اسلام کا وہ چشمہِ ہدایت و رحمت پھوٹا جو تمام دنیا کے لئے تاقیامت کافی و شافی رہے گا۔ زہے نصیب اِس مقام اور اِن چٹانوں، اِن کے غاروں اور وادیوں کے کہ اِن میں سے حضورؐ کے مبارک قدم گزرے۔ اِس خطّہِ زمین کے دشوار گزار راستہ، کٹھن منزلیں، ہولناک درّے کچھ بھی روک نہ بن سکے اور ایسا پیغامِ حق پہنچایا لانے والے نے کہ آج دنیا میں کہیں بھی جاؤ مسلمان اور اُس کی مسجد موجود ہے اور یہ حقیقت سچ نظر آتی ہے کہ:

جس راہ چلے تیرے دروبام ہی آئے

Top