حضورؐ کے نقشِ پا

از
رضیہ فاروقی

Hazur (saw) ke Naqsh-e Pa

by Razia Faruqui

Paigham-e-Sulh (Pakistan), 27th February 1980 Issue (Vol. 67, No. 9, p. 5, 4)

میری عزیز بہنو اور پیاری بیٹیو! میرے اِس مضمون کا موضوع ہے ’’حضورؐ کے نقشِ پا‘‘۔

جس طرح ایک بے بہا اور بے خطا تراشے ہوئے ہیرے کا ہر پہلو بے داغ اور چمک دمک میں یکساں ہوتا ہے۔ اُسی طرح ہمارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلّم  کی سیرت ہر لحاظ سے دلکش و لاثانی ہے اور اُس کے کسی ایک پہلو کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ خیرالبشر تھے۔ دنیا کے کامل انسان تھے لیکن تھے ہماری آپ کی طرح انسان۔ کوئی مافوق البشر نہ تھے اور ایک انسان کی زندگی میں کئی جُز ہوتے ہیں۔ دینی، دنیاوی، معاشرتی، سیاسی۔ میں نے اِس وقت آپؐ  کی زندگی کے ایک سادے مگر پیارے پہلو کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ہے آپؐ کی گھریلو زندگی۔ دنیا کی تاریخ میں بے شمار مشہور و معروف ہستیوں کے نام و نشان ملتے ہیں۔ عظیم الشان بادشاہ، شہنشاہ، دلیر سپہ سالار، فاتحِ عالم، مشہور و معروف مصنف۔ لیکن اُنھیں سے بہتوں کی گھریلو زندگی کے حصّے زیادہ تر تاریک اور قابلِ تقلید نہیں۔ اِس لئے کہ دنیا کی نصف مخلوق یعنی عورتوں اور بچوں سے اُن کے رویے اور سلوک قابلِ تعریف نہ تھے۔ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں، اِس لئے میں مختصراً ہی عرض کروں گی۔ کہ آپؐ کیسے شوہر تھے؟ جب آپؐ کو غارِ حرا میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے منصبِ نبوت و ہدایت پر مامور کیا گیا، تو اپنی کمزور انسانی ہستی اور اتنی عظیم الشان ذمہ داری کا خیال ہی لرزا دینے والا تھا۔ چنانچہ حضورؐ غارِ حرا سے کانپتے ہوئے نکلے اور سیدھے اپنی رفیقِ حیات اور دکھ سکھ کی ساتھی حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور فرمایا کہ خدیجہ مجھے اوڑھا دو، اوڑھا دو، یعنی چادر اوڑھا دو اور پھر آپؐ نے تمام ماجرا دنیا میں سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ سے بیان فرمایا۔ ذرا خیال کیجئے کہ ملکِ عرب کے اُس وقت کے معاشرے میں عورت کو اپنی شخصیّت تک نصیب نہ تھی۔ وہ تو صرف مرد کی ملکیّت سمجھی جاتی تھی۔ اُس زمانہ میں کسی شوہر کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ کسی گھبراہٹ اور تشویش کے وقت اپنی بیوی کو صلاح کار سمجھے اور اُس سے تسلّی اور تسکین کا طالب ہو۔ مگر اپنی بیوی کو اپنی ہی طرح صاحبِ عقل و فہم سمجھتے اور اپنا ہمدرد محبت شعار ساتھی مانتے ہوئے آپؐ سیدھے حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ یعنی کسی وفادار دوست، عقل مند مشیر، یا صاحبِ تجربہ بزرگ کی طرف جانے کا خیال آپؐ کو نہ آیا۔ باقی حضرت خدیجہؓ نے جن الفاظ میں آپؐ کو تسلی دی اور آپؐ کی ڈھارس بندھائی کہ آپؐ کو کیوں فکر ہے؟ اﷲتعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔ یہ الفاظ دنیا کے ایک شوہر کی بے داغ ہستی پر ایک لاجواب و لافانی گواہی ہے۔ بیوی سے بڑھ کر شوہر کی فطرت اور بُرائی یا بھلائی سے کون واقف ہو سکتا ہے۔ جب وہی کہے کہ آپؐ صادق ہیں۔ امین ہیں۔ انسانوں، رشتہ داروں، غریبوں، بے بسوں، کمزوروں کے مددگار و غم خوار ہیں۔ جو اصل مقصدِ انسانیت ہے۔ تو اُس شوہر کی پاک و صاف اور بلند و اعلیٰ فطرت کا کیا کہنا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی آپؐ کی رفیقِ حیات حضرت خدیجہؓ تھیں۔ حضورؐ کے اِس ایک عمل نے عورت کے رتبے کو انتہائی پستی سے اٹھا کر مردوں کے بلند ترین مقام کے برابر کر دیا۔ اور یہ فخر رہتی دنیا تک میں نصیب ہوا کہ حضورؐ کی سب سے پہلی غم خوار، مشیر، صلاح کار اور ایمان لانے والی، ایک خاتون تھیں۔ آپؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلّم کی سب سے بڑی اور پہلی زوجہ محترمہ تھیں۔

اب آپؐ کی سب سے کم عمر اور دوسری زوجۂ محترمہ حضرت عائشہؓ کی زندگی پر نظر ڈالئے۔ حضرت عائشہؓ اپنے لڑکپن سے لے کر حضورؐ کی وفات تک آپؐ کی رفیقِ حیات اور مونس و دم ساز تھیں۔ کیا نتیجہ ہم اِس رفاقت کا دیکھتے ہیں کہ اسلام کو ایک ایسی بلند مرتبہ صاحبِ فہم و قرآن اور حدیث ہستی میّسر آئی کہ صحابہؓ  اور دوسرے مسلمان آپؓ  سے درسِ قرآن لیتے تھے اور بے شمار حدیثیں حضرت عائشہؓ سے مروی ہیں، جن سے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلّم کی پاک زندگی، اُن کی عبادات، اُن کے خیالات، اُن کی ہدایات اور اُن کے ارشادات، سب کا علم نصیب ہوتا ہے۔ اور اُس کے علاوہ آپؐ کی طبیعت کی، سادگی اور شگفتگی کی ایسی ایسی جھلکیں بھی نظر آتی ہیں۔ جیسے ایک بار مدینہ میں کچھ حبشی تلوار کے کرتب دکھا رہے تھے، حضرت عائشہؓ نے بھی دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضورؐ اُن کے سامنے آڑ بن کر کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہؓ  اُن کے کندھے پر سے تماشا دیکھتی رہیں۔ آپؐ کھڑے رہے یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ خود تھک کر ہٹ گئیں۔ اِسی طرح ایک عید کے موقعہ پر آپؐ آرام فرما رہے تھے کہ چند لڑکیاں دف بجا بجا کر گانے لگیں۔ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے آرام کے خیال سے اُن کو روکا تو آپؐ نے فرمایا کہ عائشہ اُن کو مت روکو کہ آج عید کا دن ہے۔ ایک بار سفر میں آپؐ نے حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگائی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں ہلکی پھلکی تھی، آگے نکل گئی۔ دوسری مرتبہ کچھ زمانے کے بعد اِسی طرح تفریح میں حضرت عائشہؓ بھاری ہو جانے کی وجہ سے پیچھے رہ گئیں اور آپؐ نے دوڑ جیت لی تو ہنس کر فرمایا کہ اب ہم برابر ہو گئے۔آپؐ نہ صرف گھر کے کام کاج میں ازواجِ مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے تھے بلکہ غم ہو یا خوشی، سفر ہو یا جنگ، زندگی کے ہر مرحلے اور موڑ پر وہ آپؐ کی ساتھی تھیں۔ حضورؐ کے حسنِ سلوک اور بے مثال طرزِ معاشرت کا روشن ثبوت تو یہ ہے کہ جب دنیا کے مال و دولت، عیش و آرام ایک طرف اور اﷲ اورا ُس کا رسولؐ دوسری طرف مقابلے میں رکھے گئے تو بلا پس و پیش تمام ازواجِ مطہراتؓ نے اﷲ اور اُس کے رسولؐ کو ترجیح دی۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ اور نہ کبھی آئندہ ملے گی۔

اب رہے ننھے مُنے بچے۔ قوموں کی مستقبل کی امیدیں، تو ہمیں حضورؐ کی زندگی میں بچّوں کے ساتھ برتائو میں سوائے محبت و شفقت، صبروتحمّل اور پیار اور دلداری کے کچھ نہیں ملتا۔ آپؐ کے اپنے نواسوں حضرت امام حسنؓ و حسینؓ کو نانا حضورؐکی محبت اور پیار نے اتنا بے تکلف کر دیا تھاکہ آپؐ سجدے میں ہوتے اور وہ جیسے بچوں کا قاعدہ ہے کھیل سمجھ کر آپؐ کے اوپر سواری کرنے لگتے تو آپؐ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تا کہ اُن کی دل شکنی نہ ہو۔ نہ صرف اُن کو بلکہ تمام مسلمانوں کے بچوں کو گود میں لینا، پیار کرنا آپؐ کا دستور تھا۔ کسی صحابیؓ  کا ایک پیارا سا بچہ عُمیر جو ماں کی گود سے محروم تھا، اپنی ایک ننھی مُنی پالتو چڑیا سے دل بہلاتا مسجدِ نبوی میں کھیلتا رہتا تھا۔ ایک دن چڑیا مر گئی۔ چڑیا لئے بچہ حیران اور اداس آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑا تھا۔ حضورؐ کا گذر ہوا تو آپؐ نے بے اختیار بچے کو پیار کیا اور فرمایا کہ ”عمیر“ تمہاری چڑیا نے کیا کیا کہ مر کر رہ گئی۔ رحمۃ للعالمین کی توجہ نے بچے کا دل رکھ لیا۔ اُس کا حیران اور افسردہ دل کِھل اُٹھا۔ وہ اپنا غم بھول گیا۔ ایسے ایسے بے شمار چھوٹے چھوٹے مگر اہم واقعات سے آپؐ کی سیرت کے ورق جگمگا رہے ہیں۔ اور ہمیں اپنے آقا کے قدموں کی پیروی کرنے کے لئے کیا کیا نہیں ملتا۔ آپؐ کی سیرتِ مقدسہ ماں باپ، میاں بیوی، بہن بھائی، عزیز و اقربا، غریبوں، مسافروں اور سب سے بڑھ کر انسانوں کے ساتھ حُسنِ سلوک، حُسنِ معاشرت، حسُنِ معیشت، سب کے نمونے موجود ہیں۔ مناسب اور ایک حد تک سیروتفریح، کھیل تماشہ پر روک ٹوک نہیں۔ دین کے ساتھ دنیا میں رہنے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ حُسن و خوبی سے سلوک کرنے کا سبق تو ہمیں ملتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں آپؐ کے اُن چھوڑے ہوئے نقشِ پا میں کن جذبات اور کن عادات کا نشانہ نہیں ملتا۔

ہمیں آپؐ کی تمام زندگی میں جھوٹ، دھوکا، کینہ، انتقام، غیض و غضب، غصہ اور اُن سے بھی بڑھ کر سخت کلامی اور دل آزاری کرنے کا شائبہ و سراغ تک نہیں ملتا۔ تنگ دلی، منافقت، حسد، رشک کا نشان و گمان اُن نقشوں میں مفقود ہے۔

اﷲتعالیٰ مجھے معاف فرمائے مگر مجھ سمیت ہم تمام عورتوں میں یہ کمزوری ہے کہ کسی سے اختلافِ رائے یا مخالفت میں اور ملامت کرنے میں ہم سخت کلامی اور دل آزاری سے بھرپُور کلمے استعمال کرتی ہیں۔ حالانکہ وہی بات نرم اور ملائم الفاظ میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ نفرت یا حقارت سے کوئی قائل نہیں ہوتا۔ ہاں محبت اور نرمی ضرور دِل جیت لیتی ہے۔ ایسی عادتوں کو بدلنے اور طبیعت پر قابو پانے کے لئے جب ہم حضورؐ کے نقشِ پا کی طرف آتے ہیں تو بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ:

جو دِل میں بس رہی ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو
ہم جس میں جی رہے ہیں وہ دُنیا تمہیں تو ہو

 اور دُنیا کے علاوہ دین کی تلاش ہو تو سبحان اﷲ آپؐ کا وہ مقام ہے کہ:

جلتے ہیں جس مقام پہ پَر جبرئیلؑ کے
اُس سدرۃ المنتہیٰ کے شناسا تمہیں تو ہو

حضورؐ کے نقشِ پا کی پیروی کر کے آپ فرشتوں سے آگے بڑھ کر سدرۃ المنتہیٰ کے کنارے چھو سکتے ہیں۔ آپ خدا کو پا سکتے ہیں۔

”اللھم صَلیِ علیٰ مُحمَد و بَارک وسَلم“

Top