ایک غلطی کا ازالہ

از حضرت مرزا غلام احمد قادیانی

Ek Ghalati ka Izalah

by Hazrat Mirza Ghulam Ahmad of Qadian

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

نَحۡمَدُہٗ وَ نُصَلِّیۡ عَلیٰ رَسُوۡلِہِ الۡکَرِیۡمِ

ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے۔ وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اہل ِحق ہونے کے اُن کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے، چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا، کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ،اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مرسل  اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس (۲۲)  برس ہوئے۔ یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں ،اُن میں سے ایک یہ وحی ِاللہ ہے    

ہُوَ الَّذِیۡۤ  اَرۡسَلَ  رَسُوۡلَہٗ  بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ  الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ  عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (الصف 61 : 9)

دیکھو   صفحہ ۴۹۸ براہین احمدیہ۔  اس میں صاف طور پر اس  عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد اسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی ِاللہ ہے

جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ

یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حُلّوں میں، دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۵۰۴ ۔ پھر اِسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحیِ اللہ ہے

مُحَمَّدٌ  رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ  عَلَی الۡکُفَّارِ  رُحَمَآءُ  بَیۡنَہُمۡ (الفتح 48 : 29)۔

اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی ِاللہ ہے جو صفحہ ۵۵۷ براہین میں درج ہے ” دنیا میں ایک نذیر آیا“ ۔  اس کی دوسری قرأ ت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔ اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔ سو اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیّٖن ہیں، پھر آپؐ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پُرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں۔ بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی ِنبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ بے شک ایسا عقیدہ تومعصیت ہے اور آیت 

وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ  النَّبِیّٖنَ (الاحزاب 33 : 40)

  اور حدیث 

لَانَبِیَّ بَعْدِیْ

اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں ،اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ

وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ  النَّبِیّٖنَ (الاحزاب 33 : 40)

اور اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے، جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے،  اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت ِصدیقی کی کھلی ہے یعنے فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے،  اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت ِمحمدی کی چادر ہے، اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیونکہ وہ اپنی ذات سے نہیں ،بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اُسی کے جلال کے لئے۔ اس لئے اس کا نام آسمان پر محمدؐ اور احمدؐ ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ محمدؐ کی نبوت آخر محمؐد کو ہی ملی، گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو۔ پس یہ آیت کہ

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ  اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ  النَّبِیّٖنَ (الاحزاب 33 : 40)

اس کے معنی یہ ہیں کہ

لَیْسَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِ الدُّنْیَا وَلٰـکِنْ ھُوَاَبٌ لِرِجَالِ الْاٰخِرَۃ لِاَنَّہٗ خَاَتَمَ النّبِیِّیْنَ وَلَا سَبِیْلَ اِلٰی فَیُوْضِ اللّٰہِ مِنْ غَیْرِتُوَسُّطِہٖ