جلسہ سالانہ کی تقریب پر تبادلہ خیالات کے لیئے حضرت امیر ایدہ اللہ کی دعوت میاں صاحب کو
از مولانا محمد علی
Jalsa-e-Salana ki Taqrib par Tabadalah-e-Khayalat ke liye Hazrat Ameer ki Dawat Mian Sahib Ko
by Maulana Muhammad Ali
In this booklet, written in December 1918, Maulana Muhammad Ali (1st Head of the Ahmadiyya Anjuman Ishaat-e-Islam Lahore) challenges the Qadiani Khalifa, Mirza Mahmud Ahmad, to a debate on the differences between both Jamaats, at the Jalsa Salana events of the respective branches of the Ahmadiyya Movement. There would thus be a debate at Lahore followed by one at Qadian. The Qadiani Khalifa responds by accusing Maulana Muhammad Ali of being crafty, to which the Maulana responds with an alteration of the rules of engagement of the debate to appease the Khalifa.

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نَحْمَدَہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
مکرم مُعظم میاں صاحب۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
میں نے آپ کی چٹھی موسومہ حقیقۃ الامر کا جواب شروع کیا ہے۔ اِس میں میں نے جلسۂ سالانہ پر تبادلۂ خیالات کے لئے آپ کو ایک دعوت دی ہے۔ جس کو اِس لئے کہ شاید اِس جواب کی تیاری میں دیر ہوجائے گی علیحدہ آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں۔ اُمید ہے کہ آپ جلد اِس کی منظوری سے اطلاع دیں گے۔ دعوت حسبِ ذیل ہے:
”میں اب بھی ایک آسان راہ فیصلہ کی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اِس دفعہ آپ کا جلسۂ سالانہ دسمبر میں نہیں، ہمارا ہے۔ آپ ایسٹر (Easter)میں یعنی بحارمیں کریں گے۔ آپ اپنے مریدین کے لئے ایک اعلان شائع کر دیں کہ آپ خود اِس جلسہ میں شریک ہوں گے۔ اور وہ بھی جہاں تک ممکن ہو شریک ہوں۔ سب کی مہمانی ہمارے ذمہ ہو گی۔ جو کچھ میں یا میرے دوست مسائل اختلافی پر تقریریں کریں، آپ اُن پر اعتراض کریں۔ ہم اُن کا جواب دیں گے۔ اگر آپ علالت کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے خود شریک ہونا پسند نہ کریں تو اپنا ایک قائم مقام مقرر کر دیں۔ جو اُس جماعت کی طرف سے حفظِ امن کا ذمہ دار بھی ہو۔ اور آپ کی جگہ ہمارے دلائل کی تردید کرے۔ اِس کے بالمقابل میں بھی ابھی یا جب آپ چاہیں اعلان شائع کر دوں گا کہ میں آپ کے جلسۂ سالانہ میں شامل ہوں گا۔ اور میرے رفقاء جہاں تک ممکن ہو شریک ہوں۔ اپنی مہمانی کا بوجھ ہم آپ کے ذمہ نہیں ڈالتے۔ جو کچھ آپ یا آپ کے دوست مسائل اختلافی پر تقریر کریں۔ میں اُن پر اعتراض کروں۔ آپ کی طرف سے جواب ہوگا۔ اگر میں علالت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے خود شریک نہ ہو سکوں تو اپنا ایک قائم مقام مقرر کردوں گا۔ جو میری جماعت کی طرف سے حفظِ امن کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ اور میری جگہ آپ کے دلائل کی تردید بھی کرے گا۔ اعتراض اور جواب دو دفعہ ہوں گے۔ اور آخری جواب الجواب تقریر کرنے والے کا ہوگا۔ والسلام
خاکسار محمد علی
احمدیہ بلڈنگس، لاہور
۶ دسمبر ۱۹۱۸ء
میاں صاحب کا جواب:
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نَحْمَدَہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
مکرمی مولوی صاحب۔
السلام علیکم۔ آپ کا ایک مطبوعہ اعلان جس میں آپ نے مجھے اور میرے مبائعین کو لاہور آنے کی دعوت دی ہے، مجھے ملا۔ مجھے تعجب ہے کہ جہاں آپ کو یہ معلوم ہوا کہ اِس سال ہم نے جلسہ مارچ تک ملتوی کر دیا ہے وہاں آپ کو اُس کے ساتھ ہی یہ معلوم نہ ہوا کہ جلسہ کی التوا کی وجوہ کیا ہیں۔ کیوں کہ اگر آپ اُن وجوہ کو مدِّنظر رکھتے۔ اور حق جوئی آپ کے مدِّ نظر ہوتی تو کبھی ایسا اعلان شائع نہ کرتے۔ جیسا کہ اخبارات میں شائع ہوچکا ہے۔ جلسہ کے اِس سال ملتوی کرنے کی یہ وجہ ہے کہ:
۱۔ تو ابھی ملک میں ایک سخت وبا پڑ چکی ہے۔ بلکہ بعض حصّص ملک میں ابھی تک پڑی ہوئی ہے۔ پس خطرہ ہے کہ بیماری سے تازہ اُٹھے ہوئے لوگ سفر کی تکلیف نہ برداشت کر سکیں یا اجتماع سے پھر کسی قسم کی تکلیف ہو جاوے۔
۲۔ قحط سالی کے اخراجات۔ جن کے ساتھ بیماری کے اخراجات مل گئے ہیں۔
پس ضروری سمجھا گیا کہ جب تک ایک عرصہ نہ گذر جائے کہ لوگ اپنی صحت میں ترقی کر لیں اور جو بار خرچ اُن پر پڑ چکا ہے وہ ہلکا ہوجائے۔ اُس وقت تک جلسہ نہ کیا جاوے۔
اب اِن وجوہ کے اعلان کے باوجود آپ کا یہ لکھنا کہ اِس موقعہ پر مبائعین اور میں یا میرا قائم مقام لاہور آویں۔ اگر ایک چالاکی نہیں تو اور کیا ہے۔ آپ بڑی مہربانی سے کھانے کے متعلق تو دعوت دیتے ہیں۔ مگر دوسری مضرتوں اور اخراجات کا کون ذمہ دار ہو گا۔ پھر اِس قحط سالی میں دو دفعہ اخراجات غرباء کس طرح برداشت کریں گے۔ اگر لاہور آویں تو دوبارہ قادیان آنا مشکل ہو گا۔
علاوہ ازیں احقاقِ حق کا یہ کون سا طریق ہے۔ کہ ایک جلسہ میں تو آپ اپنی تقریر کریں اور اِس کے تین ماہ کے بعد ہم اِس کے زہر کا ازالہ کریں (حاشیہ خط کے آخر پر دیکھیئے)۔ کیا آج تک کسی راستباز نے اِس تجویز کو منظور کیا ہے؟ پس اگر آپ میں کچھ بھی صداقت کا پاس ہے تو اِس قسم کی چالاکیوں کو ترک کر کے ایک مجلسِ مناظرہ کا فیصلہ کریں جس میں اصل اختلافی مسائل پر برابر حقوق کے ساتھ گفتگو ہو جاوے۔ اور ایسے مقام پر ہو کہ وہ ہم دونوں کے لئے برابر ہو۔ اِس میں ہمارے آدمی بھی شامل ہوں اور آپ کے بھی۔ اگر یہ بات آپ کو منظور ہو تو اپنے کسی معتبر کو اِس کام کے لئے مقرر کر کے مجھے اطلاع دیں۔ جو فیصلہ شرائط میں آپ کا قائم مقام ہو۔ میری طرف سے مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر ہوں گے۔
خاکسار مرزا محمود احمد
قادیان
۱۸ دسمبر ۱۹۱۸ء
حاشیہ: گو آپ نے اپنے جلسہ میں ہم کو اعتراض کرنے کا موقعہ دینے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اول تو اعتراض کرنے والے کے لئے وقت بہت کم ہوا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں آخری تقریر مدعی کی ہوتی ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ صرف اعتراض کرنے سے پوری طرح کسی زہر کا ازالہ نہیں ہوا کرتا۔ اور نہ ہی اِس سے سامعین کی پوری تشفی اور تسلی ہوا کرتی ہے۔ جب تک معترض علاوہ خصم کے دلائل کو توڑنے کے اپنے معتقدات کو مفصل طور پر معہ دلائل نہ بیان کرے۔ لیکن اِس کے لئے آپ تین ماہ بعد کا وقت مقرر کرتے ہیں۔
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نَحْمَدَہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
مکرم مُعظّم میاں صاحب۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ میرے ۶ دسمبر کے خط کا جس میں آپ کو شمولیتِ جلسہ کے لئے دعوت دی تھی، جواب ۱۸ دسمبر کا لکھا ہوا آج ملا۔ آپ اِس دعوت کے قبول کرنے سے اِس بنا پر انکار کرتے ہیں کہ:
۱۔ بعض لوگ بیماری سے اُٹھے ہوئے سفر کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے۔
۲۔ قحط سالی کے اخراجات بعض لوگوں کو دو بار سفر کی اجازت نہ دیں گے۔
اِس کے علاوہ جو آپ نے اِسے میری چالاکی قرار دیا ہے اور میرے خیالات کو زہر قرار دیا ہے۔ وہ میں آپ کو للہ معاف کرتا ہوں۔ اور اِسی دعوت کو دُہراتا ہوں۔ بیشک وہ لوگ نہ آویں جو تازہ بیماری سے اُٹھے ہوئے ہونے کی وجہ سے سفر کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے اور نہ وہ لوگ جو بوجہ تنگدستی دوبارہ سفر کے اخراجات کی برداشت نہیں کر سکتے۔ میں نے پہلے بھی یہ نہ لکھا تھا کہ سب لوگ آئیں۔ جو آسکتے ہیں آئیں۔ رہا یہ شُبہ کہ مجمع سے پھر بیماری پیدا ہوجائے گی، یہاں لاہور میں آریہ سماج کا جلسہ خوب دُھوم دھام سے ہوا۔ کوئی بیماری عود نہیں کر آئی۔ جن علاقوں میں ابھی تک بیماری ہو اُن لوگوں کو آپ مستثنیٰ کر دیں۔
اگر آپ خود تشریف لائیں (اور میں یقین رکھتا ہوں کہ لاہور آنے سے تبدیل آب و ہَوا سے آپ کی صحت کو بھی فائدہ ہو گا۔ آخر دوسری جگہ بھی تو آپ ابھی ہو آئے ہیں) تو مجھے یہ بھی منظور ہے کہ پہلے دن میری تقریرہو ڈیڑھ گھنٹہ۔ آپ اِسی تقریر پر آدھ گھنٹہ کے لئے اعتراض کریں۔ میرا جواب آدھ گھنٹہ ہو۔ پھر آپ آدھ گھنٹہ تقریر کریں۔ پھر میرا جواب آدھ گھنٹہ ہو۔ اور دوسرے دن آپ ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کریں۔ اور میں آدھ گھنٹہ اعتراض کروں۔ پھر آپ آدھ گھنٹہ جواب دیں۔ پھر آدھ گھنٹہ میرے اعتراض کے لئے ہو۔ اور پھر آپ کا جواب الجواب آدھ گھنٹہ ہو۔
اِس صورت میں زہر کا ازالہ بھی آپ فوراً کر سکیں گے۔ اور چالاکی بھی کوئی نہ رہی۔ اِس کے بالمقابل یہی معاملہ میرے ساتھ آپ کے جلسۂ سالانہ پر ہو۔ یعنی پہلے دن قادیان کے مجمع میں ڈیڑھ گھنٹہ آپ کی تقریر ہو، میرا اعتراض، آپ کا جواب ۔ پھر اعتراض، پھر جواب الجواب آدھ گھنٹہ ہو ۔ دوسرے دن میری تقریر ڈیڑھ گھنٹہ، آپ کا اعتراض۔ پھر جواب، پھر اعتراض، پھر جواب الجواب آدھ آدھ گھنٹہ ہو۔
میری غرض صرف دوستانہ گفتگو سے ہے۔ فریقین ایک دوسرے کا ادب ملحوظ رکھ کر گفتگو کریں۔ اِس کے بعد مناظرہ کی آپ کی دعوت کو بھی میں قبول کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ جلسہِ عام ہو اور مناظرہ تحریری ہو اور شرائظ اگر آپ مولوی فضل الدین صاحب کے سُپرد کریں گے تو اُن کا وہی حشر ہو گا جو پہلے ایک دفعہ ہو چکا ہے۔ جواب بواپسی مرحمت ہو۔ والسَّلام۔
خاکسار محمد علی
احمدیہ بلڈنگس، لاہور
۱۹ دسمبر ۱۹۱۸ء
شائع کردہ: گلزار محمدی سٹیم پریس، لاہور میں باہتمام شیخ گلزار محمد پرنٹر چھپا