جماعتِ احمدیہ میں تفرقہ کے اصل اسباب

از ڈاکٹر اللہ بخش

Jamaat-e Ahmadiyya mein Tafarqa ke Asl Asbab

by Dr. Allah Bakhsh

نظامِ انجمن یا مطلق آمریت (غیر مسئول قیادت)؟

”انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے“ (الوصیّت)

”میرے بعد ہر ایک امر میں صرف اِس انجمن کا اجتہاد کافی ہے۔“ (تحریر حضرت مسیح موعودؑ )

؂

اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے؟

آئِندہ کا مؤرخ جب جماعت احمدیہ کی تاریخ پر قلم اُٹھائے گا تو اُس کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ ۱۹۱۴ء میں اِس جماعت میں تفرقہ کے کیا اسباب ہوئے؟ دونوں جماعتوں کے مابین معتقدات کے اختلاف پر کثیر لٹریچر شائع ہوچکا ہے حالانکہ تفرقہ کا اصل و بنیادی سبب اعتقادات کا اختلاف نہ تھا بلکہ یہ کہنا صحیح ہے کہ تفرقہ پیدا کرنے کے لئے معتقدات میں اختلاف کھڑا کیا گیا۔ مگر اصل سبب پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اِس لئے ضروری معلوم دیتا ہے کہ واقعات کی روشنی میں تفرقہ کے اسباب کے موضوع پر کچھ بیان کیا جائے۔ عام طور پر یہ بھی غلط فہمی پھیل گئی ہے کہ اختلاف ۱۹۱۴ء یا اُس کے قریب پیدا ہوئے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے آخری ایّامِ زندگی میں ہی بنیادی اختلاف پیدا ہوچکا تھا۔

صدر انجمن احمدیہ کا قیام اور اُس کا صحیح مقام:

۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے متواتر وحی سے آپ کی وفات کا زمانہ قریب بتلایا گیا تو اُس پر آپ نے خدائی منشاء کےمطابق رسالہ الوصیّت تحریر فرمایا جس میں اشاعتِ دین کے لئے اُس انتظام کو تجویز کیا جو آپ کی وفات کے بعد جماعت میں قائم ہونا چاہئیے۔ چنانچہ آپ اُس میں یوں تحریر فرماتے ہیں:

اعلائے کلمۃ ٔ الاسلام بذریعہ اہلِ علم انجمن:

”بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہیئے لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ اُس صورت میں ایک انجمن چاہیئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتا رہے گا اعلائے کلمۃ اسلام اور اشاعتِ توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں ۔ یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہلِ علم انجمن کے سپرد رہے گی اور وہ باہمی مشورہ سے ترقیِ اسلام اور اشاعتِ علمِ قرآن و کتب ِدینیہ اور اِس سلسلہ کے واعظوں کےلئے ہدایت مذکورہ بالا خرچ کریں گے۔ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اِس سلسلہ کو ترقی دے گا۔ مجھے اِس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال کیوں کر جمع ہوں گے اور ایسی جماعت کیوں کر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد یہ اموال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھائیں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔“

چند روز بعد حضرت اقدسؑ نے اُس انجمن کے لئے قواعد و ضوابط شائع فرمائے جن کا نام ’ضمیمہ الوصیّت‘ رکھا۔ اِس میں کم و بیش چوبیس مرتبہ لفظ انجمن تحریر فرمایا۔ چنانچہ اِن قواعد میں سے چند اہم نقل کئے جاتے ہیں۔

صدر انجمن کے اختیارات:

”۹۔ انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا، اُس کو اختیار نہیں ہوگا کہ بجز اغراضِ سلسلہِ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے۔ اِن اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعتِ اسلام ہوگی۔

۱۰۔ انجمن کے تمام ممبر ایسے ہوں گے جو سلسلہِ احمدیہ میں داخل ہوں اور پارسا طبع و دیانتدار ہوں۔ اگر آئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانتدار نہیں یا یہ کہ وہ ایک چالباز ہے اور دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتا ہے۔ تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلا توقف ایسے شخص کو اپنی انجمن سے خارج کرے اور اُس کی جگہ اور مقرر کرے۔

۔۔۔

۱۳۔ چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اِس لئے انجمن کو دنیاداری کے رنگوں سے بکلّی پاک رہنا ہوگا اور اِس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پر مبنی ہونے چاہیئں۔

۱۴۔ جائز ہوگا کہ اِس انجمن کی تائید اور نصرت کے لئے دور دراز ملکوں میں اور انجمنیں ہوں۔

۔۔۔

۱۶۔ انجمن میں کم سے کم ہمیشہ دو ممبر ایسے چاہئیں جو علمِ قرآن اور حدیث سے بخوبی واقف ہوں۔ اور تحصیلِ علمِ عربی رکھتے ہوں اور سلسلہِ احمدیہ کی کتابوں کو یاد رکھتے ہوں۔“

قوم کے اموال، قوم یعنی انجمن کے سپرد کئے:

اِس ’ضمیمہ الوصیّت‘ کو حضرت اقدسؑ اِن الفاظ پر ختم فرماتے ہیں:

”میں نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ تم اشاعتِ دین کے لئے ایک انجمن کے حوالہ اپنا مال کرو گے۔ اور بہشتی زندگی پاؤ گے۔ بہتیرے ہیں کہ وہ دنیا سے محبت کرکے میرے حکم کو ٹال دیں گے مگر بہت جلد دنیا سے جدا کئے جائیں گے تب آخری وقت میں یہ کہیں گے:

ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ (یٰسٓ 36 : 52)

(ترجمہ: یہ وہ ہے جس کا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔)

(الراقم مرزا غلام احمد، خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعودؑ۔ ۶ جنوری ۱۹۰۶ء)

اِن اقتباسات کو جو کوئی پڑھے گا اُس پر واضح ہوجائے گا کہ تحریکِ اشاعتِ اسلام کے لئے حضرت اقدسؑ نے اپنے بعد انجمن کا جمہوری نظام قائم کیا۔ چنانچہ متذکرہ بالا تحریروں سے ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ سے حاصل شدہ اموال ایک بادیانت اہلِ علم انجمن کے سپرد رہیں گے اور وہ باہمی مشورہ سے ترقیِ اسلام و اشاعتِ قرآن، وغیرہ میں خرچ کرے گی اور’ضمیمہ الوصیّت‘ میں اُس انجمن کے ممبروں کی صفات اور اُن کے اختیارات کو بھی بیان فرما دیا۔ نہ صرف مرکزی انجمن کی تشکیل کی بلکہ اُس کے ماتحت دوسرے ممالک میں ماتحت انجمنوں کے قیام کی تجویز بھی کی ۔ نیز انجمن کا تعلق مامور من اللہ سے اِن الفاظ میں واضح کردیا:

”چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اِس لئے اِس انجمن کو دنیاداروں کے رنگوں سے بکلّی پاک رہنا ہوگا اور اِس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں۔“

’ضمیمہ الوصیّت‘ کے آخری الفاظ قابلِ غور ہیں کہ:

”میں نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کروں بلکہ تم اشاعتِ دین کے لئے ایک انجمن کے حوالہ اپنا مال کرو گے۔“

نہ صرف اپنے بعد اموال کو انجمن کے حوالہ کرنے کو فرمایا بلکہ خود اپنے بارہ میں بھی یہی قانون قبول فرمایا کہ میں خود بھی تمہارے اموال کو اپنے قبضہ میں نہیں لینا چاہتا ۔ بلکہ یہ انجمن کے سپرد ہوں گے چنانچہ اُس کے جلد بعد ہی آپ نے وہ انجمن تشکیل کردی، اُس کے چودہ ممبر منتخب کردیئے اور اپنے ہاتھ سے اموال اور دیگر انتظام اُن کے حوالہ کردیئے اور یہ انجمن آپ کی زندگی کے آخری اڑھائی سال کام کرتی رہی۔

اسلامی شوریٰ کے اُصول کا احیاء:

اموال و انتظامِ سلسلہ کو اپنے بعد کسی شخصِ واحد کے تصّرف و قبضہ میں نہیں دیا بلکہ اُس کے برعکس اپنی زندگی میں ہی ایک جمہوری نظامِ انجمن مشتمل بہ چودہ منتخب ممبران قائم کرکے اُن کے سپرد جماعت کا سارا کاروبار کردیا۔

جو شخص انتہائی اخلاص اور بے نفسی کے باعث اموال کو اپنے ذاتی قبضہ میں لانا پسند نہیں کرتا وہ بھلا اپنے بعد اپنی اولاد کے لئے کب یہ بات گوارا کرے گا کہ وہ اُس پر قبض ہوں؟ اِس طرح حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی میں جمہوری نظام کو اپنے ہاتھوں سے قائم کرکے اُس کے سپرد اموال اور دیگر انتظام سپرد کردیا ۔ اِس زمانہ نے مشائخ اور پیروں کے لئے یہ ایک اعلیٰ ترین نمونہ آپ نے قائم کر دکھلایا کہ اُن کے لئے مشعلِ راہ ہو اور جہاں دیگر اسلامی اُصولوں کا احیاء فرمایا وہاں اسلامی شوریٰ کے اُصول کو بھی زندہ کردکھایا۔

صدر انجمن احمدیہ کا طریقِ کار:

ایک شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ چودہ ممبروں کی ایک انجمن کے حوالے جماعت کے اموال و دیگرمعاملات سُپرد کرنے کے لازماً یہ معنی نہیں کہ وہ انجمن کسی کے ماتحت نہ ہو۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ مشورہ دینے کے لئے قائم کی گئی ہو مگر اصل منشاء یہ ہو کہ خلیفہ یا امیرِ جماعت کے ماتحت انجمن کام کرے لیکن اِس بارہ میں بھی ادنٰی ابہام باقی نہ رہا جب ایک پیش آمدہ معاملہ میں جناب میر ناصر نواب صاحب نے بجائے انجمن کے فیصلہ کے اپنی رائے کے مطابق عمل کرانا چاہا اور یہ معاملہ حضرت اقدسؑ کے پیش ہوا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود ؑ نے انجمن کے طریقِ کار کا فیصلہ اور بھی واضح الفاظ میں یوں فرما دیا:

”میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہوجائے کہ ایسا ہونا چاہئیے اور کژتِ رائے اُس میں ہو جائےکہ ایسا ہونا چاہیئے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہیئے اور وہی قطعی ہونا چاہئیے۔ لیکن اِس قدر میں زیادہ لکھنا پسند کرتا ہوں کہ بعض دینی امور میں جو ہماری خاص اغراض سے تعلق رکھتے ہیں مجھے محض اطلاع دی جائے۔ اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلافِ منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی۔ لیکن یہ صرف احتیاطاً لکھا جاتا ہے۔ کہ شاید ایسا امر ہو کہ خدائے تعالیٰ کا اِس میں کوئی خاص ارادہ ہو اور یہ صورت صرف میری زندگی تک ہے اور بعد میں ہر ایک امر میں صرف اِس انجمن کا اجتہاد کافی ہوگا۔ والسّلام مرزا غلام احمد عفی عنہ۔ ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء“

اب اِس تحریر سے جس کا فوٹو شائع کیا جا چکا ہے اور جو مامور من اللہ مسیح موعودؑ کے اپنے قلم سے ہے کچھ بھی شک و شبہ باقی نہ رہ گیا کہ جماعتِ احمدیہ کا مال و دیگر انتظام خود حضرت مسیح موعودؑ نے کلیۃً صدر انجمن احمدیہ کے سپرد کردیا تھا۔ پھر جب ایک شخص (میر ناصر نواب صاحب) نے اِس کے خلاف کرانا چاہا تو فیصلہ اُن کے برخلاف اور انجمن کے حق میں دے کر کثرتِ رائے یا اسلامی مشوریٰ کے طریقِ کار کو رائج فرمایا ۔ اِس میں خود اپنے متعلق جو استثناء رکھی وہ بھی صرف دینی امور میں اور اِس لئے کہ شاید خدائے تعالیٰ کا کوئی خاص منشاء اِس بارہ میں ہو۔ پھر یہ آخری الفاظ کہ:

”یہ صرف میری زندگی تک ہے اور بعد میں ہر ایک امر میں صرف اِس انجمن کا اجتہاد کافی ہوگا۔“

کسی ادنٰی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دیتے کہ آپ کے بعد جماعت کا نظام جمہوری طریق یعنی صدر انجمن احمدیہ کی کثرتِ رائے کے مطابق چلانا مامور من اللہ کی وصیّت تھی۔ اگر آپ کے نزدیک انجمن نے کسی امیر یا خلیفہ کے ماتحت کام کرنا تھا تو جہاں ایک رنگ کا استثناء اپنے لئے رکھا تھا، کیا یہ لازم نہ تھا کہ وہاں اپنے بعد بھی اِسی قسم کا استثناء امیر یا خلیفہ کے لئے رکھ دیتے؟

جس طرح الوصیّت میں یہ الفاظ فرمائے کہ ایک بادیانت و اہلِ علم انجمن باہمی مشورہ سے ترقیِ اسلام و اشاعتِ علمِ قرآن کے مقاصد بجا لائے، عین اُسی کے مطابق ۲۷ اکتوبر ۱۹۰۷ء کی تحریر میں انجمن کو یہ منشورِ آزادی و عمل عطا کیا کہ اِس انجمن کے فیصلے کثرتِ رائے سے طے پائیں اور تمام ایسے فیصلے صحیح سمجھے جانے چاہئیں اور قطعی ہونے چاہئیں اور اِس انجمن کا ایسا اجتہاد ہر ایک امر میں کافی اور قابلِ قبول ہوگا۔

اختلاف کی اصل بناء انجمن کا وجود ہُوا:

واقعات سے یہ امر ثابت ہے کہ جب سے حضرت اقدسؑ نے انجمن کی بنا ڈالی تب سے ہی میاں محمود احمد صاحب اِس انجمن کے مخالف و دشمن ہوگئے تھے کیوں کہ جیسے کہ آگے چل کر واقعات سے ثابت ہوجائے گا، آپ نے اپنے خلیفہ بننے کے لئے پوری سعی کی نیز آپ کو کسی طرح یہ منظور نہ تھا کہ اموال و انتظام ِسلسلہِ انجمن کے قبضہ میں رہیں بلکہ آپ ایک مطلق العنان اور مطاع الکل قائد بننے کے خواہاں تھے۔ ایک طرف حضرت اقدسؑ نے جمہوری نظام صدر انجمن احمدیہ کی شکل میں قائم کرکے اُسے تمام اختیارات سونپ دیئے تھے، دوسری طرف میاں محمود احمد صاحب کی آرزوئیں ٹھیٹھ آمریت کی تھیں۔ اِن میں باہمی مطابقت و مفاہمت کی قطعاً کوئی گنجائش نہ تھی، اِس لئے انجمن کے وجود میں آجانے کے دن سے ہی میاں صاحب اُس کے مخالف اور اُسے توڑنے کی فکر میں لگ گئے تھے۔ اِس مقصد کو اُنہوں نے کئی مرحلوں میں طے کیا، اِس کا مفصل ذکر توآگے آئے گا۔ البتہ اِس قدر یہاں بیان کردینا ضروری ہے کہ میر ناصر نواب صاحب، نانا جان میاں محمود احمد صاحب، کا حضرت اقدس ؑ کی زندگی میں ہی اُلجھ جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُن کی خواہش یہ تھی کہ ممکن طور پر حضرت اقدسؑ اِس معاملہ میں انجمن کے فیصلہ کو ایک طرف اور اپنے قرابت دار کو دوسری طرف دیکھ کر مؤخر الذکر کے حق میں فیصلہ دے دیں تو اِس طرح انجمن کے برخلاف آپ کے خاندان کے حق میں ایک دلیل آجائے گی مگر افسوس کہ یہ مراد بر نہ آئی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایسا دو ٹوک فیصلہ انجمن کے حق میں دے دیا جس سے آپ کے بعدتمام معاملات میں اُس کے پورا پورا با اختیار ہونے کا قطعی و حتمی فیصلہ ہوگیا۔ اِس میں جو استثناء اپنے لئے رکھی، اُس سے بھی یہ بات پائیہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ حضرت اقدسؑ کے ذہن میں یہ امر قطعاً موجود نہ تھا کہ یہ انجمن کسی دیگر شخص یعنی خلیفہ یا قائد یا امیر کے ماتحت ہوگی وگرنہ صاف ظاہر ہے کہ جہاں اپنے لئے استثناء رکھی تھی وہاں آئندہ خلیفوں یا امیروں کے بارہ میں بھی ضرور استثناء رکھتے۔ غرضیکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ جب میر ناصر نواب صاحب کا یہ حربہ نہ صرف ناکام ہوا بلکہ بکلّی اُن کے خلاف پڑا تو اُس کے بعد جن لوگوں کو انجمن کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا اُنہیں حضرت اقدسؑ سے اِس بارہ میں بالکل کوئی توقع نہ رہی اور وہ آپ کی زندگی میں انجمن کے معاملہ میں پھر کوئی شاخسانہ نہ کھڑا کرسکے۔ حضرت مولانا نورالدین ؒ کو جو تاریخی خط میاں محمود احمد صاحب نے انجمن کے بعض اراکین کو خارج کرنے کے لئے لکھا تھا، اُس میں الزامی طور پر اپنی قلبی کیفیت یوں بیان کرگئے ہیں:

”پس جب حضرت صاحب کو وفات سے بارہ گھنٹے پہلے اُنہوں نے یہ دُکھ دیا تو اُس کا جوش آپ کے عہد میں نکلنا ضروری تھا۔ کیونکہ حضرت صاحب کے سامنےیہ لوگ پھر بھی ڈر کر بات کرتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ پکڑ کر اُسی وقت باہر کردیں گے۔“

اگر انجمن کے وجود پر زیادہ اعتراض کیا جاتا تو لازم تھا کہ حضرت اقدسؑ اپنے اِس انتظام کے بر خلاف جو الہیٰ منشاء کے ماتحت قائم کیا تھا کہنے یا کرنے والوں کی ضرور جماعت سے خارج کردیتے خواہ وہ آپ کے کوئی عزیز یا قریبی ہی کیوں نہ ہوتے۔ اِس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بیٹے فضل احمد کو عاق کردیا تھا اور اُس کا جنازہ بھی نہ پڑھا تھا کیوں کہ وہ خدا اور رسولؐ کا مخالف و دشمن تھا۔ اِسی طرح دیگر اقرباء سے اِسی بناء پر آپ کا قطع تعلق کرنا بھی واقعات میں سے ہے۔ پھر جب خود میاںمحمود احمد صاحب پر آپ کی زندگی میں زنا کا الزام لگا تو آپ نے فرمایا کہ:

” اگر یہ الزام ثابت ہوجائے تو میں محمود احمد کو عاق کردوں گا۔“

اِس میں کیا شبہ ہے کہ ماموریت کی شان تب ہی متحقق ہوتی ہے جب اپنی ذات یا اپنے خاندان کے مقابل اُصولِ حَقّہ کا ٹکراؤ ہوتا ہو تو مقدم ہر حالت میں اُصول کو کیا جائے۔

حضرتِ اقدسؑ نے نظامِ انجمن کے قائم کرنے اور بعد میں انجمن کے مقابل اپنے خسر (میر ناصر نواب صاحب) کے برخلاف فیصلہ دینے میں جو اعلیٰ ترین قربانی کا نمونہ پیش کیا ہے وہ تمام دینی و دنیاوی لیڈروں کے لئے مشعل راہ ہے۔ اِنہی عالی اقدامات سے آپ کا منجانب اللہ صادق ہونا ثابت ہوتا ہے غرضیکہ ازروئے الوصیّت انجمن کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے ذہن میں یہ ہوتا کہ آپ کو وفات کے بعد بھی انجمن کو کسی قائد یا خلیفہ کے ماتحت رہنا تھا تو کیا یہ از بس ضروری نہ تھا کہ جس طرح آپ نے اپنے لئے استثناء رکھی تھی، خلیفہ کے لئے بھی رکھتے؟ مگر تمام الوصیّت اور ضمیمہ کو پڑھ جائیے جماعت کے نظام بالخصوص مالی انتظام کے متعلق بُجز انجمن کے کسی کو مختار نہیں بنایا۔

نظامِ انجمن اور شخصی اختیارات:

ایسی اُصولی و عملی صراحت کے بعد جب کوئی مزید گنجائش نہ رہی تو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں انجمن کے بارہ میں کوئی سوال پیدا کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ لیکن حضرت صاحبؑ کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں ہی پہلے سالانہ جلسہ پر انجمن کے بارہ میں تنازع شروح ہوگیا۔ اِس بارہ میں خود میاں صاحب کا اپنا مسلّمہ ملاحظہ ہو:

”میرا اِن باتوں کے لکھنےسے یہ مطلب تھا کہ یہ بات ابھی شروع نہیں ہوئی بلکہ حضرت اقدسؑ کے زمانہ سے ہے۔ وہ لنگر کا چندہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ آپ نے وہ بھی اُن کے حوالہ کیا۔“ (خط بنام حضرت مولانا نورالدین ؒ)

یہاں اِس مشہور خط کا جس میں میاں محمود احمد صاحب نے جماعت لاہور کے ممبروں کو جماعت سے خارج کردینے پر زور دیا تھا یہ اقتباس اِس لئے دیا گیا ہے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ اختلاف حضرت صاحب کی زندگی میں ہی شروع ہوچکا تھا اور اِس اختلاف کی بناء اموال کے انتظام سے متعلق تھی۔

اِسی خط میں اِس کی مزید وضاحت میاں صاحب یوں فرماتے ہیں:

”دنیاوی معاملات میں میں آئندہ کچھ دخل نہ دوں گا۔ اِس کے متعلق یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ اُن کے سُپرد کردیئے جائیں تو اِس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوں گے کہ گو لفظاً نہیں مگر معنا ً خلافت اُن کے سُپرد کردی گئی اور اِس طرح وہ اور بھی خود مختار ہوجائیں گے۔“

جناب میاں صاحب نے تسلیم فرما لیا کہ معنًا خلافت اموالِ سلسلہ پر قبضہ ہی ہے۔ پھر آپ کے یہ الفاظ کہ” اگر یہ اُن کے سُپرد کردیئے جائیں تو وہ اور بھی خود مختار ہوجائیں گے۔“ بھی قابلِ غور ہیں۔ یہ الفاظ ”اُن کے“ اور ”وہ“ سے مراد انجمن کے ممبر ہیں۔ گویا یہ ثابت ہوگیا کہ میاں صاحب کو یہ منظور نہ تھا کہ انجمن کے ممبر اموالِ سلسلہ کے بارہ میں مختار ہوں بلکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ یہ سب خلیفہ کے ماتحت ہو۔ اِسی لئے آپ خلیفہ کو ایک طرف اور انجمن کو اُس کے مدِّ مقابل رکھ رہے ہیں۔ منصف و متحقق حضرات غور کریں کہ کیا حضرت صاحب کی وصیّت اور اُس کے ماتحت آپ کی قائم کردہ انجمن کی حیثیت یہ تھی جو میاں صاحب چاہتے تھے؟ میاں محمود احمد صاحب کو خوب علم تھا کہ اگر انجمن بااختیار رہی، جو الوصیّت اور حضرت صاحب کی اُس کے قیام سے مراد تھی تو وہ خود کبھی مختار یا غیر جواب دہ نہیں بن سکتے اور یہ اُنہیں کسی صورت میں گوارا نہ تھا۔ جو شخص خود مطاع الکل بننا چاہتا ہو، ظاہر ہے وہ جمہوری یا انجمن کا نظام کب قبول کرسکتاہے ۔ آگے چل کر یہ ثابت کیا جائے گا کہ الوصیّت کی قائم کردہ انجمن کو میاں صاحب نے خلیفہ بن کر کس طرح بالکل کالعدم بلکہ توڑ کر رکھ دیا۔

میر محمد اسحاق صاحب کے سوالات:

اِسی ضمن میں یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ۱۹۰۹ء میں میر محمد اسحاق صاحب، ماموں میاں محمود احمد صاحب، نے حضرت مولانا نورالدینؒ کی خدمت میں سات یا نو سوالات پیش کئے جن کا ماحصل یہ تھا کہ انجمن خلیفہ پر حاکم ہے یا خلیفہ انجمن پر؟ کیا انجمن خلیفہ کو معزول کرسکتی ہے یا خلیفہ انجمن کو کالعدم قرار دے سکتا ہے؟ کیا خلیفہ اموالِ سلسلہ کو انجمن کے قبضہ سے لے کر اپنی تحویل میں لے سکتا ہے یا نہ؟

اِن سوالات کی نوعیت سے بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ اصل تنازع اموال پر قبضہ کا تھا۔ میاں محمود احمد صاحب اور اُن کے ہمنوا کسی طرح یہ گوارا نہ کرسکتے تھے کہ انجمن اموال پر قابض اور اُن کی مالک رہے بلکہ آپ خلافت کا مُدعا ہی یہ سمجھتے تھے کہ خلیفہ کی حیثیت ایک مطاع الکل و مطلق العنان قائد و حاکم کی ہو۔ میاں محمود احمد صاحب اور میر محمد اسحٰق صاحب کے مسلمات کے بعد کہ بنیادی و اوّل تنازع اموال پر قبضہ اور خلیفہ کی غیر مسئول حیثیت کا تھا، مناسب ہے کہ دوسرے فریق لاہور کے بھی دو چوٹی کے افراد کی شہادتیں پیش کردی جائیں جو یہی ثابت کرتی ہیں کہ اصل اختلاف یہ تھا کہ قائدِ جماعت کی حیثیت انجمن پر مختار کل و حاکم کی ہو یا حضرت صاحب کی بنا کردہ انجمن کو جملہ اختیارات حاصل رہیں اور اِس اختلاف کی بناء حضرت صاحب کی زندگی میں ہی انجمن کے وجود میں آنے پر پڑگئی تھی۔

یہ دو شہادتیں حضرت مولانا محمد علی صاحبؒ اور خواجہ کمال الدین مرحوم کی ہیں۔

حضرت مولانا محمد علی صاحبؒ کی شہادت کہ بنیادی اختلاف کا باعث انجمن کا وجود ہُوا:

”غرض میاں صاحب کی ہمارے ساتھ مخالفت کی پہلی بناء انجمن کا وجود ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے بنائی۔ ہم نے اُن سے درخواست نہ کی تھی بلکہ وہ انجمن حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی اشارہ کی بناء پر ہی بنائی تھی میاں صاحب کو انجمن کا بننا اندر ہی اندر ناگوار گذرا اور انجمن کو نابود کرنے کی فکر میں اُن کے وقت کا بڑا حصّہ گذرا۔ مجھے اِس سے بحث نہیں کہ وہ نیک نیتی سے انجمن کے وجود کے مخالف تھے یا صرف اموالِ سلسلہ پر ذاتی تصّرف اُن کی اصل خواہش تھی، مگر یہ بہر حال ثابت ہے کہ انجمن کی بنیاد کے ساتھ ہمارے خلاف اُن کو شکایت پیدا ہوئی اور اُسی انجمن کے توڑنے کے درپے رہے۔“ (حقیقتِ اختلاف، صفحہ ۲۵)

آگے چل کر حضرت مولانا محمد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی اُسی کتاب کے صفحہ ۲۸ پر رقمطراز ہیں:

”جیسے کہ میں میاں صاحب کے خط کے ایک حصّہ کو نقل کرکے دکھا چکا ہوں، میاں صاحب کے دل میں کوئی بیماری ہمارے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی پیدا ہو چکی تھی اور اُن لوگوں سے (مراد ممبرانِ صدر انجمن احمدیہ قادیان) جن کے سپرد حضرت مسیح موعودؑ نے اموالِ سلسلہ کی حفاظت کو کیا تھا میاں صاحب کے دل میں کچھ نقار تھا۔“

”اِس کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے آخری حصّہ میں میاں صاحب کی کسی قدر کشیدگی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ۱۹۰۷ء کے آخری حصّہ میں میں نے اِسی بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ شاید اِس طرح اصلاح ہوجائے تین ماہ کی رخصت لے کر میاں صاحب کو اپنی جگہ سیکرٹری تجویز کیا اور جب سالانہ انتخابِ عہدیداران کا وقت آیا تو چونکہ انتخابِ عہدیداران ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے استصواب سے کیا جاتا تھا، اِس لئے میں نے خود حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ آئندہ کے لئے میاں صاحب کوسیکرٹری بنا دیا جائے۔ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اِس کی رائے میں خامی یا کچّا پن ہے۔“

حضرت خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کا حلفیہ بیان:

متذکرہ بالا بیان کی تائید حضرت خواجہ کمال الدین مرحوم کے حلفیہ بیان سے ہوتی ہے جو آپ نے اپنی کتاب ”اندرونی اختلافِ سلسلہ کے اسباب“ میں دیا، اِس طرح ہے۔

”کیا یہ صحیح نہیں کہ ایک موقعہ پر میں نے نواب صاحب (مراد نواب محمد علی خاں) کو درد سے کہا کہ آؤ خدا کے لئے ہم قوم پر رحم کریں۔ کیوں بات بات پر ایک دوسرے کی مخالفت کریں۔ کبھی یونیورسٹی کا معاملہ، کبھی طریقِ تبلیغ، کبھی مسئلہ کُفر۔ کیوں مختلف طریقوں سے قوم کے دو ٹکڑے کئے جاتے ہیں۔ اِس پر نواب صاحب نے اور میں نے رات کو نو دس بجے اُن کی کوٹھی کے میدان میں تنہائی میں گفتگو کی اور آپ نے فرمایا کہ صرف ایک مسئلہ میں فیصلہ کردو۔ خلیفہ کو کلّی اختیارات دے دو، اور باقی سب امور ختم ہوجاتے ہیں۔“

” ِاس کے جواب میں میں نے نواب صاحب کو کہا کہ جو خلیفہ نورالدین جیسا ہو کر دکھلائے گا وہ اپنے ذاتی کمالات سے ہم پر حکمران ہوگا نہ بحیثیت خلیفہ۔ اُس کے دوسرے دن نواب صاحب اور میاں صاحب جلسہ سے اُٹھ کر چلے گئے۔ میں خدا تعالیٰ کو حاظر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ صحیح اور درست ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔“

سارا تنازعہ قیادت کی نوعیّت یعنی اختیارات کا تھا:

حضرت خواجہ صاحب مرحوم کے حلفیہ بیان سے ثابت ہوگیا کہ نواب محمد علی خاں صاحب نے بالصراحت اِس امر کو تسلیم کر لیا کہ درحقیت باقی امور اختلافی ختم ہوجاتے ہیں اگر صرف یہ بات مان لی جائے کہ خلیفہ مطاع الکل و مختار غیر مسئول ہے۔ کیا اِس مسّلمہ کی رُو سے یہ ثابت نہ ہوگیا کہ اصل بنیادی اختلاف قیادت کی نوعیت پر ہوا؟ نیز کیا یہ بھی معلوم نہ ہوگیا کہ باقی امورِ اختلافی ضمنی حیثیت رکھتے ہیں جو اصل اختلاف کو ہوا دینے کے لئے کھڑے کئے جاتے ہیں؟ کیا خلیفہ کو کلّی اختیارات دے دینے سے جیسا کہ نواب محمد علی خاں نے خود مانا انجمن یا جمہوری نظام باقی رہ سکتا ہے؟

یہاں اِس امر کو بخوبی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بڑی بھاری غلط فہمی ہے جو پھیلائی گئی ہے کہ تفرقہ کا باعث یہ امر ہُوا کہ جماعت احمدیہ کا قائد کون ہو۔ ہمارے ربوی احباب کا کہنا ہے کہ چوں کہ مولوی محمد علی خود خلیفہ بننے کے خواہاں تھے مگر اُن کو قادیان میں خلافت مل نہ سکی اِس لئے وہ ناراض ہو کر لاہور آگئے اور یہاں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنالی۔ اِس الزام کے نیچے ذرّہ بھر حقیقت نہیں۔ جیسے کہ میں آئندہ چل کر ثابت کروں گا، مولوی محمد علی صاحبؒ کا قطعاً کوئی ارادہ ایسا نہ تھا اور یہ وہ بات ہے جسے خود میاں محمود احمد نے تحریراً تسلیم کیا ہے۔ پھر یہ کہ حضرت مولانا نورالدین ؒ کی زندگی میں جس قدر مخلصانہ سعی و جہد مولانا محمد علی صاحبؒ نے اتحادِ جماعت کو قائم رکھنے کے لئے کی اُس سے بڑھ کر کسی کے لئے ممکن ہی نہ تھا، نیز آپ نے میاں محمود احمد کی قیادت کو تسلیم کرنے کی آمادگی نہ صرف مولانا نورالدینؒ کی زندگی میں بلکہ لاہور آکر بھی صدقِ دل سے ظاہر کی۔ اِس کے برخلاف میاں محمود احمد نے اتحاد کی ہر ممکنہ تحریک کو ٹھکرا دیا۔ یہ تمام امور میں واقعات کی بناء پر ثابت کروں گا۔ پس جبکہ تنازع یہ تھا ہی نہیں کہ قائد کون ہو بلکہ یہ تھا کہ جماعت کے قائد کی پوزیشن بالخصوص صدر انجمن قائم کردہ حضرت مسیح موعودؑ کے مقابل پر کیا ہو، تو اِس صورت میں یہ پروپیگنڈا کرنا کہ خلافت نہ ملی تو مولوی محمد علی نے علیحدگی اختیار کر لی کس قدر خلافِ واقعہ تہمت و بہتان ہے۔

نہ صرف نواب محمد علی خاں یہ کہتے ہیں کہ اصل جھگڑا تو اختیارات کا ہے، اگر وہ کُلّی طور پر خلیفہ کو مل جائیں تو باقی کوئی امر متنازع فیہ نہیں رہتا بلکہ اِس امر کے تسلیم کرنے میں کہ فی الواقعہ تنازع یہی تھا نہ کہ معتقدات کا اور نہ ہی قائد کے انتخاب کا، باقی اصحاب بھی گواہ ہیں۔ چنانچہ میں میر محمد اسحٰق کے سات یا نو سوالات کا اُوپر ذکر کر چکا ہوں اور بتلا چکا ہوں کہ اُن سوالات کا جو ۱۹۰۹ء میں ہی پیش کئے گئے تھے خلاصہ بھی ایک فقرہ میں آجاتا ہے کہ اختیارات ِنظم و نسق و اموالِ سلسلہ کسے حاصل ہیں، شخصِ واحدیعنی خلیفہ کو یا انجمن کو؟ میاں محمود احمد اور اُن کے اعزّہ و ہمنوا اِس امر پر مصر تھے اور مولانا نورالدینؒ سے یہ فیصلہ لینا چاہتے تھے کہ خلیفہ چاہے انجمن کو رکھے اور اگر چاہے تو اُسے توڑ دے خلیفہ کو یہ اختیار ہے۔ اِسی طرح خلیفہ چاہے تو اموال و املاک کو انجمن سے چھین کر اپنے قبضہ میں کر لے۔

پھر خود میاں محمود احمد کو یہ امر مسّلم ہے جیسا کہ اُن کے خط منجانب مولانا نورالدینؒ کے اقتباس سے میں دکھلا چکا ہوں کہ اگر اموال انجمن کے تصرف میں رہیں جیسے کہ اُس وقت تھے تو معنا ً خلافت اُنہی کی یعنی انجمن کی ہی رہتی ہے۔ اِسی غرض کے لئے میاں صاحب نے اپنے خط میں مولانا نورالدینؒ کو اِس اعلان کرنے سے بھی باز رکھا کہ آئندہ خلیفہ کو دنیاوی امور سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔

حضرت مولانا محمد علیؒ کو بھی یہ تسلیم ہے کہ بنیادی و اصل تنازع یہی تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے انجمن قائم کرتے ہی ۱۹۰۶ء میں میاں صاحب کے دل میں کوئی بیماری پیدا ہوگئی تھی اور یہی امر کہ حضرت اقدسؑ نے انجمن یا جمہوری نظام قائم کرکے اختیارات کیوں اُس کے سُپرد کر دیئے میاں صاحب کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔

پس فریقین کے اصحاب اِس ایک امر پر اتفاق کُلّی رکھتے ہیں کہ اصل و بنیادی تنازع اختیارات کا تھا اگر بمطابق الوصیّت حضرت مسیح موعودؑ انجمن باختیار ادارہ رہے تو شخصی حکمرانی کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور اگر آمریّت مطلق قائم کی جائے تو پھر انجمن کا توڑنا لازم آتا ہے۔ یہ امر بالبداہت ظاہر ہے کہ یہ دونوں امر ایک دوسرے کے نقیض ہیں۔ پس یہ امر نہایت وضاحت سے ثابت ہے اور اُسے بحضورِ دل یاد رکھنا ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ میں تفرقہ اِس لئے ہُوا کہ میاں محمود احمد اختیارات کُلّی لینے یا آمریت مطلق قائم کرنے کے متمنّی تھے یا دوسرے لفظوں میں انجمن کو کالعدم کرنے کے خواہاں تھے مگر اُن کے برخلاف حضرت مولانا محمد علی صاحب ؒ نظامِ انجمن کو جو کہ الوصیّت کے مطابق خود حضرت مسیح موعودؑ کا قائم کردہ تھا برقرار رکھنا چاہتے تھے۔

تفرقہ کے بعد کے واقعات کیا ثابت کرتے ہیں:

میں نے فریقین کے مسلمات سے ثابت کردیا ہے کہ تفرقہ کا حقیقی و اصل باعث جو بنیادی بھی ہے اور اوّلین بھی اختیارات کا مسئلہ تھا جسے یوں بھی ادا کیا جانا صحیح ہے کہ جماعت احمدیہ کے اموال و املاک نیز دیگر اُمورِ انتظامیہ پر اختیار کسے حاصل ہو، قائدِ جماعت کی شخصی حکمرانی و مطلق آمریت قائم ہو یا حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے ہاتھ سے قائم کردہ انجمن کے جمہوری نظام کو؟ جس طرح یہ بات تفرقہ سے قبل کے واقعات سے ثابت ہے اُسی طرح یہ امر تفرقہ کےبعد کے واقعات سے بھی بخوبی عیاں ہے۔ جو کچھ میاں محمود احمد بننا چاہتے تھے آیا وہ وہی کچھ بن کررہے یا نہ؟ آیا اُنہوں نے صدر انجمن کو کالعدم کرکے توڑا یا نہ؟ آیا اُنہوں نے جماعت میں اپنی پوزیشن آمرِ مطلق کی بنائی یا نہ؟ کیا جماعت میں صحیح آزادیِ رائے کا کوئی شِمّہ باقی رہنے دیا؟ کیا یہ واقعات نہیں ہیں کہ ادنٰی اختلاف پر بھی اندرون ِ جماعت بائیکاٹ اور دیگر حربے مقاطعہ و مصائب کے افراد پر وارد کئے گئے؟ کیا اِس میں ادنٰی سا مبالغہ ہے کہ پیر پرستی اپنی انتہائی بھیانک شکل میں جماعتِ ربوہ میں دیکھی جاسکتی ہے؟ پیر کی غلامی کی انتہائی بد شکل میں جکڑے جانے کا یہاں تک کہ اگر خلیفہ دن کورات کہہ دے تو مرید رات بھی کہنے پر مجبور ہو کا دَور دَورہ کیا ربوہ کے نظام کی پشت پناہی نہیں کرتا؟ کیا اِس میں کوئی کلام ہے کہ ربوی نظام مطلق العنانی و آمریّت میں اپنی نظیر نہیں رکھتا؟ پھر کیا اِس میں کچھ شُبہ ہے کہ حضرت مولانا محمد علیؒ جو کچھ چاہتے تھے یعنی یہ کہ جمہوری نظام بمطابق الوصیّت و قائم کردہ صدر انجمن حضرت مسیح موعودؑ رائج ہو،کیا یہی کچھ جماعتِ احمدیہ لاہور کے نظام کی اساس نہیں رہی جسے تبدیل کرنے کی آج تک کسی کو جرأت نہیں؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ جب ایک مرتبہ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور میں اختیارات کے سلسلہ میں ریزولیوشن پیش ہُوا کہ کارکنوں کی تقرری و موقوفی کے اختیارات بھی بجائے صدر کے انجمن کو ہی حاصل ہوں تو حضرت مولانا محمد علیؒ نے اِن اختیارات کو بھی انجمن کو سونپ دیا؟ تفرقہ سے قبل کے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ اِس کا سارا باعث یہ اختلاف ہُوا کہ جماعتی نظام کس طرز کا ہو، وہی جو خود بانی ٔ سلسلہؑ نے بمطابق الوصیّت کہ:

” انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے۔“

اور فرمودہِ حضرت کہ:

”میرے بعد ہر ایک امر میں صرف اِس انجمن کا اجتہاد کافی ہے۔“ قائم کیا تھا؟

یا یہ کہ اِس نظام کو توڑ کر اُس کے عین برعکس جملہ اختیارات نظم و نسق اور قبضہِ اموال و املاک شخصِ واحد یعنی خلیفہ یا امیر کو حاصل ہوں؟ اور اِس طرح قائد آمرِ مطلق کی حیثیت حاصل کرکے سچی اسلامی آزادی کی رُوح کو جماعت سے سلب کرلے؟ پس اِس پر نہ صرف قبلِ تفرقہ کے واقعات گواہ ہیں۔ بلکہ تفرقہ کے بعد کے واقعات بھی شاہدِ ناطق کھڑے ہیں۔