میاں محمود احمد صاحب پر اُن کے مریدین کے الزامات اور بریّت کا نرالا طریق تمام راستبازوں پر حملہ
از مولانا محمد علی
Mian Mahmud Ahmad par un ke Muridin ke Ilzamat aur Bariyyat ka Nirala Tareeq Tamam Rast-bazon par Hamlah
by Maulana Muhammad Ali
In this booklet, Maulana Muhammad Ali points out the ludicrous escape route devised by Mian Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad in response to the allegations of misconduct levelled against him by his ex-followers.
Download PDF (Size: 698 KB)
۲ دسمبر ۱۹۳۸ء کے خطبہ میں جو ۸ دسمبر کے ”الفضل“ میں چھپا ہے جناب میاں صاحب نے حسبِ معمول سورہ فاتحہ کی تفسیر کی جس کا عنوان ہے، ”شیخ عبدالرحمٰن مصری کی نہایت ہی گندی گالیاں اور مولوی محمد علی صاحب“۔ میرا قصور صرف اِس قدر ہے کہ ہائیکورٹ کے ایک مطبوعہ فیصلہ کی بنا پر جس میں میاں صاحب کے خلاف اُن کے ایک سابق مرید کے خطرناک الزامات درج تھے خطبہ جمعہ میں مَیں نے یہ کہا تھا کہ وہ قادیان جس کی شہرت حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں راستبازی اور پاکیزگی کی وجہ سے تھی۔ آج اُس کی دوسری قسم کی شہرت دنیا میں پھیل رہی ہے۔ جناب میاں صاحب نے اِس پر بہت اظہارِ غیظ فرمایا ہے۔ مگر جو امر بہت قابلِ افسوس ہے وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کی یہ کوشش ہے کہ وہ ثابت کریں کہ حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی قادیان کی شہرت نیکی اور راستبازی کی وجہ سے نہ تھی اور اُس زمانے میں دشمن تو ایک طرف رہے، حضرت صاحب کے مرید بھی نعوذ باللہ من ذالک حضرت صاحب پر ایسے ہی الزام لگایا کرتے تھے جیسے آج میاں صاحب کے مرید اُن پر الزام لگا رہے ہیں۔ سبحانک ہذا بہتانٌ عظیم۔ نہیں بلکہ وہ اِس سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر رسول اللہ صلعم کو بھی نعوذ باللہ من ذالک ایسے ہی الزامات کا مورد ٹھہراتے ہیں۔
میاں صاحب کو اپنی برّیت کا اب یہی ایک طریق نظر آتا ہے کہ وہ راستبازوں کو بدنام کریں۔ مجھے اِس سے انکار نہیں کہ بعض بد باطن دشمن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ بلا وجہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ لیکن پرانے زمانے کے احمدیوں اور غیر احمدیوں دونوں سے کوئی دریافت کرلے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ قادیان میں لوگ آتے تھے۔ تو وہ حضرت صاحب کے دشمنوں سے مل کر آپ کے حالات دریافت کرتے تھے اور تب بیعت کرتے تھے جب دشمنوں کو بھی آپ کی نیکی اور راستبازی کا قائل پاتے تھے اور آپ کے کیریکٹر پر کبھی کسی دشمن نے بھی حملہ نہیں کیا چہ جائیکہ کوئی مرید ہو کر ایسا الزام آپ پر لگائے جیسے میاں صاحب پر لگ رہے ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ اپنی بریّت کے لئے میاں صاحب کو اِن حقائق کا انکار کرنا پڑا۔ اور وہ آج اپنے دور افتادہ مریدوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ حضرت صاحب کے زمانے میں حضرت صاحب کے چال چلن کے متعلق لوگوں کے ایسے ہی خیالات تھے جیسے اُن کے متعلق آج اُن کے دشمنوں کے ہی نہیں مریدوں کے ہیں۔ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔ میاں صاحب اپنے خطبوں کو جتنا چاہیں لمبا کریں اور الفاظ کی ہیرا پھیریوں میں اصل حقائق کو چھپاتے رہیں۔ لیکن کوئی تاریخ نویس اِن دو موٹے واقعات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قادیان کی آج سے چالیس سال پیشتر کی حالت اور آج کی حالت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ آج سے چالیس سال پیشتر قادیان کا کیریکٹر وہ تھا جسے سر محمد اقبال نے بھی بطور نمونہ پیش کیا اور جس کو دنیا نیکی اور راستبازی سے تعبیر کرتی تھی۔ اور آج کا کیریکٹر وہ ہے جس پر اپنے بھی رو کر خاموش ہو رہتے ہیں کیوں کہ اِس میں پستی اور بدنامی کا پہلو انتہاء کو پہنچ چکا ہے اور دنیا کے کونے کونے میں یہ باتیں پہنچ رہی ہیں۔
جناب میاں صاحب نے مجھے دھمکی بھی دی ہے اور ”مولوی محمد علی صاحب اور اُن کےخاندان“ کی سرخی قائم کر کے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ بھی بدلہ لینے کے لئے ہمیں بدنام کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ میری التماس ہے کہ اگر میری اور میرے خاندان کی بدنامی سے آپ کی بریّت ہو سکتی ہے تو خوشی سے اِس نسخہ کو استعمال فرمائیے۔ ہاں بے شک مجھے جو چاہیں کہہ لیں مگر حضرت مسیح موعودؑ کو بدنام کرنا چھوڑ دیں، اِس خطبہ میں فرماتے ہیں:
”جو باتیں آج مصری صاحب میرے متعلق کہہ رہے ہیں۔ ایسی ہی باتیں اُن کی پارٹی کے بعض آدمی حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق کہا کرتے تھے۔“
استغفراللہ۔ ہذا بہتانٌ عظیم۔ جمعہ کا خطبہ اور مسجد میں کھڑے ہو کر اتنا بڑا جھوٹ اور صرف اپنے عیب چھپانے کے لئے، مصری صاحب اور اُن کی پارٹی کے تو آج اشتہار مطبوعہ موجود ہیں۔ عدالتوں میں بیانات موجود ہیں اور ایک مصری صاحب پر کیا انحصار ہے۔ یہاں تو مولوی عبدالکریم (مباہلہ والے) سے شروع کر کے مریدوں کی ایک خاصی فوج ہے جو ایسے الزامات جناب میاں صاحب پر لگاتے ہیں۔ اگر میاں صاحب کے اِس بیان میں کہ حضرت مسیح موعودؑ پر بھی آپ کے مریدوں نے ایسے الزام لگائے تھے۔ ایک ذرہ بھی صداقت موجود ہے تو وہ اٹھیں اور حضرت صاحب کے اُس مرید کا اعلان یا شہادت شائع کریں جس نے حضرت صاحب پر ایسا الزام لگایا تھا جیسا میاں صاحب پر لگا ہے۔ میں نے اُس الزام کے الفاظ دوہرانے پہلے پسند نہ کئے تھے مگر اب نقل کر دیتا ہوں۔ کیوں کہ یہ الفاظ میاں صاحب اپنے اخبار ”الفضل“ میں خود شائع کرا چکے ہیں۔ اور وہ حضرت مسیح موعودؑ کو اُن ناپاک الزامات کا مورد ٹھہراتے ہیں:
”موجودہ خلیفہ سخت بدچلن ہے۔ یہ تقدّس کے پردہ میں عورتوں کا شکار کھیلتا ہے۔ اِس کام کے لئے اُس نے بعض مردوں اور بعض عورتوں کو بطور ایجنٹ رکھا ہوا ہے۔ اُن کے ذریعہ یہ معصوم لڑکوں اور لڑکیوں کو قابو کرتا ہے۔ اُس نے ایک سوسائٹی بنائی ہوئی ہے جس میں مرد اور عورتیں شامل ہیں اور اُس سوسائٹی میں زنا ہوتا ہے۔“
میاں صاحب اپنے مریدوں کو جو چاہیں کہہ کر خوش کر لیں۔ مگر اِس سیاہ جھوٹ میں ایک رائی کے لاکھوں اور کروڑویں حِصّہ کے برابر بھی صداقت نہیں کہ جماعت احمدیہ لاہور کے کسی آدمی نے حضرت مسیح موعودؑ پر کبھی کوئی ایسا الزام لگایا ہے۔ اگر میاں صاحب کے پاس اِس کا کوئی ثبوت ہے وہ اُسے مردِ میدان بن کر پیش کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کیا۔ جناب میاں صاحب نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ نعوذ باللہ تمام راستبازوں کا کیریکٹر ایسا ہی گرا ہوا ہوتا ہے اور اِسی لئے اُنہوں نے سرکارِ دو عالم کی ذات قدسی صفات کو ایسے ہی الزامات کا مورد ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ اُس خطبہ میں آپ فرماتے ہیں:
”شاید وہ سمجھتے ہیں کہ گالیاں ہم کو دی جاتی ہیں اور ہمارے متعلق ہی ایسی باتیں کہی جاتی ہیں، کسی اور کے متعلق ایسی باتیں نہیں کہی جاتیں حالانکہ کہنے والوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ اُن کے مرید تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ایسی ہی باتیں کہیں اور وہ اُن کے مرید تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی ہی باتیں کہیں اور کہنے والے آپ کے مرید کہلاتے تھے۔ پس جب اِس قدر عظیم الشان ہستیوں پر اُن کے مرید کہلانے والوں نے الزام لگائے تو میری یا اور کسی کی کیا ہستی ہے کہ ہم ایسے الزاموں سے بچ جائیں۔“
العیاذ باللہ۔ استغفراللہ۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو تو رہنے دیں۔ محمد رسول اللہ صلعم کی زندگی کے تمام واقعات تاریخی رنگ میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ آپ کے کس مرید نے ایسا ناپاک الزام لگایا تھا جیسا آپ پر لگا ہے؟ آپؐ کا ہر ناپاک بات سے بلند ہونا تو ایسا بیّن امر ہے جس پر دشمنوں کو چیلنج دیا گیا:
فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ
ترجمہ: میں تم میں اِس سے پہلے ایک عمر رہا ہوں تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (یونس ۱۰ : ۱۶)
یعنی تم مجھ پر کوئی الزام نہیں لگا سکتے۔ تو کیا مرید لگا سکتے تھے! اور میں پوچھتا ہوں کہ کیا راستبازوں پر حملہ کر کے کہ اُن کے مرید بھی اُن کو نعوذ باللہ من ذٰلک ”سخت بد چلن“ سمجھتے تھے جیسے آپ کے مریدوں نے آپ کو سمجھا۔ ”تقدّس کے پردے میں عورتوں کا شکار“ کھیلنے والے سمجھتے تھے جیسا آپ کو آپ کے مریدوں نے سمجھا۔ آپ کی بریّت ہوگئی؟ اگر یہی طریقِ بریّت ہے پھر ہر بدکار اِس عذر کو پیش کر کے بری ہو سکتا ہے۔
میاں صاحب کو اپنی بریّت کے یہ غلط طریق اِسی لئے استعمال کرنے پڑے ہیں کہ اُنہوں نے صحیح طریق چھوڑ دیا۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی دوسرے کو ملزم ثابت کر دینے سے ایک شخص کی اپنی بریّت ہو جاتی ہے وہ اِس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں۔ مجھے خوشی نہیں بلکہ سخت افسوس ہے کہ میاں صاحب پر ایسے الزام لگے جن سے قادیان کا اور ضمناً حضرت مسیح موعودؑ کا نام بدنام ہوا۔ اگر میں اُن کی جگہ ہوتا تو جب مولوی عبدالکریم صاحب (مباہلہ والے) نے الزام لگایا تھا اور اُن سے حلف کا مطالبہ کیا تھا کہ اگر اُنہوں نے اِس فعل کا ارتکاب نہیں کیا تو وہ قسم کھالیں۔ میں اپنی خاطر نہیں قادیان اور حضرت مسیح موعودؑ کے نام کی خاطر الزام کو جھوٹا جاننے کی صورت میں فوراً حلف اُٹھا لیتا۔ یہ بریّت کا سیدھا طریق تھا جسے میاں صاحب نے اختیار نہ کیا۔ مصری صاحب نے جب ایسا ہی الزام لگایا تو گو اُن کا مطالبہ اِس سے مشکل تھا مگر اُس تشہیر اور تذلیل کے مقابل میں جو ہو رہی ہے یہ بھی کوئی بڑا مطالبہ نہ تھا۔ آخر مطالبہ تو اِسی قدر تھا کہ ایک آزاد کمیشن کے ذریعہ سے تحقیقات ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ اُس کمیشن میں میاں صاحب کے مرید ہی ہوتے اور اُن پر بدگمانی نہ ہو سکتی تھی کہ وہ بغیر کسی شہادت کے پیر کے خلاف غلط فیصلہ دیں گے بلکہ اُن کا فیصلہ وہی ہوتا جو اب بھی ہے کہ اگر ہم میاں صاحب کو کوئی برا کام کرتا دیکھیں تو اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھیں گے۔ تو یہ سیدھا طریق بریّت اختیار کرنے سے گھر کے اندر ایک فیصلہ ہو جاتا اور اِس ساری ذلت سے ایک جماعت بچ جاتی۔
میاں صاحب کا یہ کہنا کہ یہ لوگ اُن کے مرید نہیں اِس لئے کہ خلافت کے مسئلے میں اُنہیں اختلاف ہے۔ نہیں، اوّل تو یہ اختلاف خلافت میں صرف اِس وجہ سے ہوا کہ اُن کو خلیفہ میں سخت نقائص نظر آئے، پہلے یہ اختلاف نہ تھا اور دوسرے میاں صاحب کا تو اعلان یہ ہے کہ مجھ سے اختلافِ عقیدہ رکھ کر بھی کوئی بیعت کر سکتا ہے۔ اُن کے تو وہ بھی مرید ہیں جو لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں کہ جن کو میاں صاحب کافر کہتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اُن لوگوں کو کافر کہتے ہیں جنہیں میاں صاحب مسلمان سمجھتے ہیں۔ بہر حال یہ لوگ سالہا سال تک اُن کے اندر رہے۔ اُن کے خاص الخاص دوست رہے۔ آخر اُس کی وجہ تو بتانی چاہیئے کہ وہ ایسی باتیں کہنے لگے جو انسان ایک دشمن کے متعلق بھی نہیں کہتا۔
مجھے افسوس ہے کہ مجھے اِن باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنا پڑا کیوں کہ میں خوب جانتا ہوں کہ آج مسلمانوں کی قوت کا بیشتر حصّہ ایک دوسرے کی تخریب کے لئے اور نہایت ہی چھوٹے چھوٹے امور میں جھگڑوں پر ضائع ہو رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اُن سے دشمن کے مقابلہ کی طاقت سلب ہو رہی ہے۔ اِسی لئے میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہماری جماعت کی توجہ زیادہ تر اعدائے اسلام کے لئے وقف رہے اور اب بھی اگر میاں صاحب کی توجہ صرف مجھ تک محدود رہتی تو میں اِن باتوں کا جواب کبھی نہ دیتا مگر اُنہوں نے چونکہ اپنی بریّت کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کو بدنام کرنا چاہا ہے بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کی ذات والا صفات پر بھی حملہ کیا ہے اِس لئے مجھے مجبوراً قلم اُٹھانا پڑا۔ مجھے وہ جو چاہیں کہہ لیں مجھے کوئی دعویٰ معصومیت کا نہیں ایک گنہگار انسان ہوں اور خدا کے رحم کا امیدوار۔
۹ دسمبر ۱۹۳۸ء
خاکسار محمد علی
امیر جماعت احمدیہ لاہور