قادیانی احباب کے لئے ایک قابل غور مَوازنہ
از مولانا محمد علی
Qadiani Ahbab ke Liye ek Qabil-e-Ghaur Muazanah
by Maulana Muhammad Ali
In this booklet, Maulana Muhammad Ali quotes from the Qadiani newsletter, Al-Fazl, the small numbers that were reported to have joined the Lahore Ahmadiyya Movement at the time of the Split of the Ahmadiyya Movement in Islam. He then mentions the work being done by the Lahore Ahmadiyya Movement and the benefits the cause of Islam would have accrued if the Qadian Jamaat had joined the Lahore Jamaat.
Printer: Muslim Printing Press, Lahore, Pakistan
Publisher: Ahmadiyya Anjuman Ishaat-e-Islam Lahore
Date of Publication: 25th May 1940

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نَحْمَدَہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہٖ الکَرِیْم
اگر جماعت احمدیہ لاہور قادیانی جماعت کے ساتھ مل جاتی:
جماعت قادیان ۱۹۱۴ء کے شروع میں یعنی اختلاف کے وقت خواہ چار لاکھ تھی اور خواہ پچیس ہزار یہ امر یقینی ہے کہ جماعت لاہور اُس وقت جماعت قادیان کے مقابلہ میں صرف دو فیصدی تھی۔ اگر احباب قادیان کا حافظہ کام نہ دے تو ذیل کے حوالے نکال کر دیکھ لیں:
الفضل، ۱۴ اپریل ۱۹۱۴ء یوم اختلاف:
’’قادیان میں سوا تین کے سب آپ کی خلافت پر متفق ہیں۔‘‘
الفضل، ۲۰ اپریل۱۹۱۴ء اختلاف کے چھ دن بعد:
’’یقینی طور پر کُل انجمنیں بیعت میں داخل ہوچکی ہیں۔ پشاور اور گوجرانوالہ کے دو چار آدمی رکے ہوئے ہیں۔‘‘ دو چار کو کل سے کیا نسبت تھی یہ حساب آپ خود لگا سکتے ہیں۔
الفضل، ۱۱ مئی ۱۹۱۴ء جماعت احمدیہ لاہور کے بننے کے آٹھ دن بعد:
’’ہم کئی بار بتا چکے ہیں ۹۸ فیصدی بیعت کرچکے ہیں۔‘‘
پس اگر جماعت لاہور الگ نہ ہوئی ہوتی تو ’’خلافت قادیان‘‘ کے وابستگان میں صرف دو فیصدی کا اضافہ ہوتا۔ یعنی اگر وہ اس وقت بقول خود دس لاکھ ہیں تو ہماری شمولیت سے دس لاکھ بیس ہزار بن جاتے۔ سوا دس لاکھ بھی نہیں۔ ان کی موجودہ سالانہ آمدنی ان کے اپنے اقرار کے مطابق پانچ لاکھ روپے سالانہ ہے، دو فیصدی کے اضافہ سے دس ہزار روپیہ اور بڑھ جاتا یعنی کُل پانچ لاکھ دس ہزار آمدنی ہوجاتی۔ پچیس ہزار پانچ سو کا اجتماع ہوجاتا ۔ سوال یہ ہے کہ اس حقیر سے اضافہ سے کیا قادیان کی جماعت کے کسی کام کو کوئی معتد بہ فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ یا ان کے نکل جانے سے ان کےکسی کام کو کوئی معتد بہ نقصان پہنچا؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔
اگر ۱۹۱۴ء سے پہلے کا بنا ہوا ایک ہائی سکول پانچ لاکھ سالانہ آمدنی اور دس لاکھ آدمیوں کی کوشش سے کالج نہ بن سکا ۔ اگر اس ہائی سکول کے ساتھ دو چار اور ہائی سکولوں کا اضافہ نہ ہوسکا۔ تو ظاہر ہے کہ پانچ لاکھ کی آمد پر دس ہزار بڑھ جانے سے بھی یہ کام نہ ہوسکتا تھا جہاں پانچ لاکھ سالانہ غرق ہورہا ہے دس ہزار اور بھی وہیں غرق ہوجاتا۔ اگر پانچ لاکھ سالانہ کی آمد سے اور دس لاکھ آدمیوں کی کوشش سے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ جو ۱۹۱۴ء میں بڑے زور شور سے شروع کیا گیا پچیس سال میں تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ یعنی ایک کروڑ روپے سے جو پچیس سال میں آیا ہوگا یہ کام نہ ہوسکا تو ایک کروڑ دو لاکھ سے بھی کوئی تیر نہ مارا جاسکتا تھا۔
غرض جماعت قادیان جو بھی مفید کام کررہی ہے اس میں ہمارے دو فیصدی کے اضافہ سے کوئی معتد بہ فائدہ نہ پہنچتا لیکن
اگر جماعت لاہور قادیان سے الگ نہ ہوتی:
تو خدمت اسلام کے کام کو حسب ذیل بھاری نقصان پہنچا ہوتا:
ا۔ آج یورپ میں چار اسلامی مشن قائم نہ ہوتے۔
ب۔ برلن میں ایک عظیم الشان مسجد نہ بنی ہوتی۔
ج۔ تین یوروپین زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے نہ ہوئے ہوتے۔ یعنی انگریزی، ڈچ اور جرمن۔
د۔ پانچ زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا ترجمہ ہوکر دنیا میں نہ پھیلا ہوتا۔
ہ۔ تین زبانوں میں اسلامی لٹریچر کا ترجمہ ہوکر دنیا میں نہ پھیلا ہوتا۔
و۔ دس ہزار کاپی قرآن کریم کے ترجمہ انگریزی کی مفت دنیا میں نہ پہنچی ہوتی نہ دو ہزار جرمن ترجمہ کی۔ نہ پندرہ ہزار کاپی سیرت نبویؐ کی پہنچی ہوتی نہ پچاس ہزار سے اوپر کتابیں اور رسالے تعلیم اسلام پر دنیا میں مفت پہنچے ہوتے۔
ز۔ مسلمان قوم کی جائداد میں دو ہائی سکولوں اور ان کی دو عمارتوں اور دو بورڈنگ ہوسٹلوں کا اضافہ نہ ہوا ہوتا۔ جن سے ہزار ہا طالبعلم دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم حاصل کرکے نکل چکے ہیں۔
ح۔ اتنا بڑا ذخیرہ اسلامی لٹریچر کا جس پر آج مسلمان قوم بجا طور پر فخر کرسکتی ہے۔ قرآن، حدیث، سیرت ، غیر مذاہب کی تحقیقات، وغیرہ۔ یہ کوئی کام نہ ہوا ہوتا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ [حضرت مرزا غلام احمد قادیانی] کے علم کے ورثہ سے دنیا محروم رہ جاتی۔
اور اس فائدہ سے محرومی کے علاوہ یہ نقصان بھی پہنچا ہوتا کہ آج حضرت مسیح موعودؑ کی اصلی تعلیم پر وہی تاریکی کا پردہ پڑگیا ہوتا جو مسیح اسرائیلی کی تعلیم پر پڑگیا تھا یعنی غلو ہی غلو باقی رہ جاتا۔ اور جس طرح مسیح اسرائیلی کے خدا ہونے کا اعتقاد ہی باقی رہ گیا اور آپ کی رسالت کا اعتقادآپ کے پیروؤں میں سے بالکل نابود ہوگیا۔ اسی طرح مسیح موعودؑ کی نبوت کا اعتقاد ہی باقی رہ جاتا اور آپ کے اصل منصب مجددیت کو کوئی سامنے لانے والا نہ ہوتا اور یہ سمجھا جاتا کہ جس طرح باب اور بہاء اللہ نے کلمہ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰھُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰھِ کو منسوخ قرار دے کر ایک نئے دین کی بنیاد رکھ دی۔ تو ہمارے جماعت قادیان سے الگ ہونے سے نقصان تو کوئی نہیں ہوا البتہ فوائد بے شمار پہنچے ہیں۔
اگر جماعت قادیان جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ مل جاتی:
جماعت احمدیہ لاہور کی سالانہ آمدنی پہلے سال میں صرف سات ہزار روپیہ تھی۔ اور اِس وقت ڈیڑھ اور پونے دو لاکھ کے درمیان ہے۔ جماعت قادیان کی آمدنی اختلاف کے وقت دو لاکھ تھی اور اِس وقت پانچ لاکھ ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جماعت قادیان جماعت لاہور کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی تو آج بجائے پانچ لاکھ کے اس کی آمدنی پچاس لاکھ سالانہ سے اوپر ہوتی کیوں کہ اگر جماعت لاہور نے اپنی موجودہ تعداد کے ساتھ اپنی آمدنی کو پچاس گنا کرلیا ہے تو جماعت قادیان کے ساتھ مل جانے سے اس کی آمدنی جو دو لاکھ تھی یقیناً اسی نسبت سے ترقی کرجاتی یعنی پچیس گنا ہوکر پچاس لاکھ تک پہنچ جاتی۔ لیکن آمدنی کے سوال کو چھوڑ کر بھی جو کام اِس اثنا میں اکیلی جماعت احمدیہ لاہور نے کیا ہے اگر جماعت قادیان جو پچاس گنا تھی اسی کی ہدایت کے ماتحت چلتی تو یہ کام بھی پچاس گنا ہوتا۔ اور پچاس گنا کام ہونے سے نتائج حسب ذیل ہوتے:
ا۔ جماعت لاہور نے دو ہائی سکول قائم کئے ہیں۔ اگر جماعت قادیان جماعت احمدیہ لاہور کی ہدایت کے ماتحت چلتی تو یقیناً پانچ کالج اور پچاس ہائی سکول بنا چکی ہوتی۔
ب۔ جماعت لاہور نے تین یورپین زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے کردیئے ہیں۔ اگر پچاس گنا جماعت قادیان بھی اس کے ساتھ ہوتی تو اس وقت تک ڈیڑھ سو زبانوں میں قرآن شریف کا ترجمہ ہوچکا ہوتا۔
ج۔ جماعت احمدیہ لاہور نے یورپ میں چار اسلامی مشن قائم کردیئے ہیں۔ انگلستان، جرمنی، ہالینڈ، سپین۔ اگر اس سے پچاس گنا جماعت قادیان بھی اس کے ساتھ ہوتی تو آج بجائے چار کے دو سو اسلامی مشن یورپ میں کام کررہے ہوتے۔
د۔ جماعت احمدیہ لاہور نے وسط یورپ میں ایک عظیم الشان مسجد بنوائی ہے۔اگر پچاس گنا جماعت قادیان بھی اس کی ہدایت کے ماتحت کام کرتی ہوتی تو پچاس مسجدیں مختلف کفرستانوں مین بنی ہوئی ہوتیں۔ جہاں سے اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی۔
ہ۔ جماعت احمدیہ لاہور کے پانچ اسلامی رسالےمختلف زبانوں میں کام کررہے ہیں۔ جماعت قادیان نے بھی اس جماعت کا ساتھ دیا ہوتا تو اڑھائی سو زبانوں میں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اسلامی تعلیم کے پھیلانے والے رسالے اور اخبار کام کررہے ہوتے۔
و۔ جماعت احمدیہ لاہور نے تیس زبانوں میں تعلیماتِ اسلام کا ترجمہ کرکے انہیں پھیلایا ہے۔ اگر جماعت قادیان بھی اس کے ساتھ ہوتی تو پندرہ سو زبانوں میں ایسے ترجمے ہوچکے ہوتے اور دنیا کے ہر کونہ میں صحیح تعلیماتِ اسلام پہنچ چکی ہوتیں۔
ذ۔ جماعت احمدیہ لاہور نے بارہ ہزار کاپی انگریزی اورر جرمن میں ترجمہ قرآن کی دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوائی ہے۔ جماعت قادیان بھی اس کے ساتھ ہوتی تو مختلف زبانوں میں ترجمہ قرآن کی چھ لاکھ کاپی مفت پہنچ چکی ہوتی۔ پندرہ ہزار سیرت نبویؐ کے بجائے ساڑھے سات لاکھ کاپیاں سیرت نبویؐ کے بجائے ساڑھے سات لاکھ کاپیاں سیرت نبویؐ کی مفت دنیا میں پہنچ چکی ہوتیں۔ پچاس ہزار رسالہ جات کی بجائے جو تعلیم اسلام کے متعلق دنیا میں مفت پہنچائے گئے ہیں پچیس لاکھ کاپی پہنچ گئی ہوتی۔
ح۔ اور اسلامی لٹریچر میں پچاس گنا اضافہ ہوکر ساری دنیا نور اسلام سے منور ہوچکی ہوتی۔
میں نہیں کہتا کہ جماعت قادیان کی موجودہ رہنمائی کس حد تک جماعت قادیان کی بے عملی کی ذمہ دار ہے لیکن خدارا غور فرمائیں کہ
اگر جماعت قادیان بھی جماعت لاہور کی رہنمائی کے نیچے کام کرتی ہوتی اور آج جماعت احمدیہ کے کارنامے یہ ہوتےکہ:
- پانچ کالج قائم ہوتے
- پچاس ہائی سکول ہوتے
- دنیا کی ڈیڑھ سو زبانوں میں قرآن شریف کا ترجمہ ہوچکا ہوتا۔
- دو سو اسلامی مشن یورپ اور امریکہ، ایشیاء، وغیرہ میں کام کررہے ہوتے۔
- پندرہ سو زبانوں میں تعلیم اسلام دنیا میں پھیل چکی ہوتی
- چھ لاکھ کاپی قرآن کریم کے تراجم کی
- ساڑھے سات لاکھ کاپی قرآن کریم کے تراجم کی
- ساڑھے سات لاکھ کاپی سیرت نبویؐ کی
- پچیس لاکھ کاپی تعلیماتِ اسلام پر رسائل کی مفت دنیا میں پہنچ چکی ہوتی
نہ سہی اس سے نصف یا تہائی یا پانچواں حصّہ ہی کام ہوا ہوتا تو دنیا میں احمدیت کی اور حضرت مسیح موعودؑ کی کس قدر عزت ہوتی اور کس طرح گروہ در گروہ وہ مسلمان اس میں شامل ہوتے اور فوج در فوج غیر مسلم اسلام میں داخل ہورہے ہوتے۔ میرے پیارے بھائیو ! آج بھی اس کام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور بیس سال میں ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپ کے مدنظر خدمتِ اسلام، تبلیغ قرآن، احمدیت اور مسیح موعودؑ کی عزت دنیا میں قائم کرنا ہو۔ اور آپ بلا وجہ تعصّب کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ آملیں۔
مؤرخہ۲۵ مئی ۱۹۴۰ء
خاکسار محمد علی
پریزیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور